021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وقت پر قسط نہ ادا کرنے کی صورت میں سودا کینسل کرنا
78409خرید و فروخت کے احکام دین )معاوضہ جو کسی عقدکے نتیجے میں لازم ہوا(کی خرید و فروخت

سوال

میں نے ایک زمین خریدی، بعد میں بھائی  عبداللہ جان  بھی اس میں نصف کا شریک  ہو گیا، اس طرح  وہ زمین میرے اور میرے بھائی عبداللہ جان کے درمیان مشترک ہو گئی، کچھ عرصہ   پہلے عبداللہ جان نے وہ زمین آگے بیچ دی،جس شخص کو یہ زمین آگے فروخت کی ہے اس کےساتھ کاعقد36کروڑروپےپرہواتھا،جس میں سے6کروڑنقداداکرنےکاکہااورباقی30کروڑمیں سے10کروڑدوماہ میں دینا طے ہوا اور20 کروڑاگلےتین ماہ میں اداکرنےکاکہاتھا۔خریداراورہمارےدرمیان یہ بھی طےہواتھاکہ اگرخریدارنےقسط کی ادائیگی میں ایک دن بھی تاخیرکی تویہ عقدمنسوخ ہوگا، چنانچہ پہلی قسط کامقررہ وقت گزرنےپروہ قسط ادانہ کرسکا،اس نےمزید ایک ہفتہ مہلت مانگی ،ہم  نے ایک ہفتہ مزید مہلت دےدی۔ایک ہفتہ گزرنےکےبعدبھی وہ قسط مکمل ادانہ کرسکا اورکہا کہ مجھےدوسری قسط میں دوماہ کی بجائےچارماہ مہلت دی جائے، کیونکہ آپ لوگوں کی شرط سخت ہے کہ ایک دن بھی اگر تاخیرہوئی توسودا منسوخ ہوگا،اس کی درخواست پرہم نےچارماہ کا وقت دےدیا۔چارماہ گزرنےکےباوجودوہ دوسری قسط مکمل ادانہ کرسکا۔اس نےتیسری قسط سوداکےساڑھےچارماہ بعددینےکاوعدہ کیاتھا،لیکن وہ اس میں بھی ناکام رہا۔ہم نےدوماہ اورانتظارکیاپھربھی وہ مکمل قسط اداکرنےمیں ناکام رہابعدازاں میں نےپیسےلینےسےانکار کردیااور سودامنسوخ کردیا۔ ہم نے سودا کرتے وقت خریدار پر درج ذیل  شرائط رکھی تھیں:

  1. ہم نےخریدارسےسوداکرتےوقت یہ کہاتھاکہ اگرسودامنسوخ ہوگیاتوہم آپ کی نقدرقم6کروڑ یکمشت ادانہیں کریں گےبلکہ ایک سال بعدواپس کریں گے۔
  2. ہماری زمین کی طرف کوئی سیدھا راستہ نہیں ہے،کیونکہ بیچ میں ایک گہراکھڈہ حائل ہے،جس کی وجہ سے بھرائی یاپل بنانےکی ضرورت ہے۔ ہماری زمین سےمتصل خریدارکےکزن کی زمین تھی،اس نے راستہ کےلیےاپنےکزن سےزمین خریدلی، جب عبداللہ جان زمین کےمعاملات طےکررہاتھا، اس وقت میں نےعبداللہ جان سےکہاکہ اس سودےمیں یہ شرط رکھوکہ خریدارنےجوزمین بطورراستہ اپنےکزن سےخریدی ہےوہ ہمارےنام کردےاگروہ زمین ہمارےنام نہیں کرتاتواس کےساتھ ہمارامعاملہ (سودا)نہیں ہےاورہم اسے زمین نہیں دیں گے، چنانچہ میرے بھائی کے بقول اس نے سودا کرتے وقت یہ شرط رکھی تھی، کیاشریعت کی روسےدرج بالایہ معاملہ  درست ہوا؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ عبداللہ جان نےجس شخص کوزمین فروخت کی ہے،اس خریدارنےزمین میں پلاٹنگ کرکےزمین آگےفروخت کرنا شروع کردی ہے،اس میں سات آٹھ گھربھی بن چکےہیں۔ہم نےخریدارسےکہاکہ آپ قسطوں کی ادائیگی سےپہلےجو پلاٹنگ کرکےفروخت کرنے کاتصرف کررہےہیں اس کے ذمہ دارآپ خودہوں گے۔یادرہےکہ قسطوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں سوداکینسل ہوگا،ایک دن کی تاخیربھی برداشت نہیں کریں گے۔ پھربعدمیں یہ نہ کہناکہ سودافسخ ہونےکی وجہ سے مجھےنقصان ہورہاہے۔سائل نے بتایا کہ اس نے کچھ پلاٹ سودا منسوخ ہونے سے پہلے بھی بیچے ہیں۔

سائل نے بتایا کہ زمین پر ابھی صرف چار پانچ گھر بنے ہیں، باقی سب زمین ویران پڑی ہے، باقی یہ میرے علم میں نہیں کہ اس نے کتنی زمین بیچی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق خریدوفروخت کرتے وقت خریداراورآپ حضرات کے درمیان یہ بھی طےہواتھاکہ اگرخریدارنےقسط کی ادائیگی میں ایک دن بھی تاخیرکی تویہ عقدمنسوخ ہوگا، اس کو فقہائے کرام رحمہم اللہ کی اصطلاح میں خیارِ نقد کہا جاتا ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ ایسی صورت میں اگر خریدار مقررہ وقت پر رقم ادا نہ کرے تو فریقین کے درمیان وہ  معاملہ فاسد ہو جاتا ہے، البتہ یہاں فقہائے کرام رحمہم اللہ نے ایک اصول لکھا ہے وہ یہ کہ فاسد خریدوفروخت میں اگر خریدار خریدی گئی چیز پر قبضہ کر کے اس میں کوئی ایسا تصرف کرکے کہ جس سے اس چیز کے ساتھ کسی اور شخص کا حق متعلق ہو جائے تو اس صورت میں خریدوفروخت نافذ ہو جاتی ہے اور فروخت کنندہ کو صرف قیمت وصول کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔

 مذکورہ صورت میں چونکہ خریدار قیمت کی ادائیگی کے لیےمقررکیے گئےوقت سے پہلے ہی پلاٹنگ کرکے کچھ پلاٹ آگے بیچ چکا ہےاور بعض خریداروں نے اس پر مکانات بھی تعمیر کر لیے ہیں، اس لیے اب حکم یہ ہے کہ پہلا خریدار جتنی زمین آگے بیچ چکا ہے اس میں یہ خریدوفروخت مکمل اور نافذ ہو چکی ہے، جس کو اب فسخ نہیں کیا جائے گا، بلکہ آپ کو اس زمین کے بدلے میں صرف طے شدہ قیمت لینے کا حق حاصل ہے۔اس کے علاوہ وہ زمین جو ابھی اس نے نہیں بیچی، بلکہ خالی پڑی ہے اس میں آپ لوگوں کو حق حاصل ہے کہ آپ اتنی زمین میں خریدوفروخت کو ختم(كينسل)کرکے زمین واپس لے سکتے ہیں اور اس صورت میں اس زمین کے بدلے خریدار سے لی گئی رقم واپس کرنا آپ کے ذمہ لازم ہو گا۔

حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (ص: 63) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
(المادة 313) إذا تبايعا على أن يؤدي المشتري الثمن في وقت كذا وإن لم يؤده فلا بيع بينهما صح البيع وهذا يقال له خيار النقد.
(المادة 314) : إذا لم يؤد المشتري الثمن في المدة المعينة كان البيع الذي فيه خيار النقد فاسدا.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام(ج:1،ص:310) دار الجيل:
 (المادة 314) : إذا لم يؤد المشتري الثمن في المدة المعينة كان البيع الذي فيه خيار النقد فاسدا. ا (المادة 315) إذا مات المشتري المخير بخيار النقد في أثناء مدة الخيار بطل البيع.
 [ (المادة 314) إذا لم يؤد المشتري الثمن في المدة المعينة]
إذا لم يؤد المشتري الثمن في المدة المعينة كان البيع الذي فيه خيار النقد فاسدا. المراد من المدة المعينة ما يعينه الطرفان في عقد البيع فإذا أدى المشتري الثمن إلى البائع في تلك المدة أصبح البيع صحيحا ولازما أما إذا لم يؤد المشتري الثمن في تلك المدة بقي المبيع على حاله فالبيع الذي ينعقد بخيار النقد لا ينفسخ بل يكون فاسدا وإذا كان المبيع في يد المشتري وباعه بعد مرور المدة أو وهبه وسلمه آخر كان تصرفه نافذا ويضمن المشتري بدله إلى البائع. أما إذا لم يكن المبيع في قبضته فتصرفه لا يكون نافذا (انظر المادتين 371 و 382) .
توضيح القيود: (في المدة المعينة) يؤخذ من هذه العبارة أن المشتري إذا لم يؤد الثمن في المدة المعينة بل بعد انقضائها فلا ينقلب البيع إلى الصحة لأنه صار فاسدا بعدم الأداء ولا يرتفع الفساد بعد ذلك (بقي المبيع على حاله) فإذا لم يبق على حاله وتصرف فيه المشتري في المدة المعينة قبل نقد الثمن أو تلف في يده أو استهلكه فالبيع يصير لازما ولا يبقى حق الفسخ فلذلك يجب على المشتري أن يؤدي ثمن المبيع إلى البائع (رد المحتار) لأن البيع بخيار النقد بمنزلة البيع بخيار الشرط أما إذا حصل عيب في المبيع بخيار النقد وهو في يد المشتري بلا تعد ولا تقصير والمدة المعينة ثم انقضت تلك المدة ولم يدفع المشتري إلى البائع ثمن المبيع فالبائع مخير بين أخذ المبيع معيبا وحينئذ لا يأخذ شيئا من الثمن، وترك المبيع للمشتري مع أخذ الثمن، أما إذا تلف المبيع في يد المشتري بعد مرور المدة المعينة وقبل أن يؤدي الثمن أو أتلفه هو ضمن قيمته أو بدله للبائع (بزازية) .
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 571) دار الفكر-بيروت:
مطلب خيار النقد (قوله: على أنه أي المشتري إلخ) وكذا لو نقد المشتري الثمن على أن البائع إن رد الثمن إلى ثلاثة فلا بيع بينهما صح أيضا، والخيار في مسألة المتن للمشتري؛ لأنه المتمكن من إمضاء البيع وعدمه، وفي الثانية للبائع؛ حتى لو أعتقه صح ولو أعتقه المشتري لا يصح نهر. [تنبيه] ذكر في البحر هنا بيع الوفاء تبعا للخانية قائلا؛ لأنه من أفراد مسألة خيار النقد
أيضا، وذكر فيه ثمانية أقوال وذكره الشارح آخر البيوع قبيل كتاب الكفالة، وسيأتي الكلام عليه هناك إن شاء الله - تعالى -. (قوله: فلو لم ينقد في الثلاث فسد) هذا لو بقي المبيع على حاله. قال: في النهر: ثم لو باعه المشتري ولم ينقد الثمن في الثلاث جاز البيع وكان عليه الثمن، وكذا لو قتلها في الثلاث أو مات أو قتلها أجنبي خطأ وغرم القيمة؛ ولو وطئها وهي بكر أو ثيب أو جنى عليها أو حدث بها عيب لا بفعل أحد ثم مضت الأيام ولم ينقد خير البائع، إن شاء أخذها مع النقصان ولا شيء له من الثمن، وإن شاء تركها وأخذ الثمن كذا في الخانية. اهـ.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

11/جمادی الاولی 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب