021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
موبائل کمپنیز کی سروسز فراہم کرنے پر کمیشن اور اضافی رقم لینے سے متعلق سوالات (تفصیلی فتوی)
78402اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلدلال اور ایجنٹ کے احکام

سوال

  1. دکانداراگراپنے موبائل اکاؤنٹ کے ذریعہ کسٹمر کی طرف سے گیس یا بجلی کا بل اداكرے تو کیا دکاندار کے لیے اس  پر 10 روپے سروس چارجز کی مد میں لینا جائز ہے یا نہیں، کمپنی کی طرف سے  دکاندار کو اضافی رقم لینے سےمنع کیا گیا  ہو یا نہ ،  دونوں صورتوں کا حکم مطلوب ہے۔
  2. کیا کسٹمر سے اضافی رقم دس روپے ہی لی جا سکتی ہے  یا  بل کی رقم کے زیادہ ہونے پر کیا دس روپے سے زیادہ  بھی لئے جا سکتے ہیں ؟
  3. : سائل نے بتایا کہ کمپنی کی طرف سے اضافی رقم لینے کے سلسلے میں ممانعت کی صراحت نہیں ہے، ہم اپنی مرضی سے لوگوں کو بل ادا کرنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔
  4. جاز کیش یا ایزی پیسہ ہر فرد کی ایک بہت ہی اہم ضرورت بن چکی ہیں، کیا دوکاندار کا   (رٹیلر اکاؤنٹ سے جو کہ کمپنی کی طرف سے صرف اسی مقصد کے لئے بنایا گیا ہے )کسٹمر کے اکاؤنٹ میں رقم جمع کروانے پر 1000 روپے پر 10 روپے اضافی لینا  جائز ہے یا نہیں، اگر چہ کمپنی کی طرف سے سختی سے منع ہے ۔لیکن کمپنی جو کمیشن دیتی ہے وہ صرف 2 روپے ہے جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔
  5. ہر بندے کا اپنا پرسنل اکاؤنٹ بھی ہو تا ہے، جاز کیش یا ایزی پیسہ کا ،کیا دوکاندار اپنے پرسنل اکاؤنٹ سے کسٹمر کے اکاؤنٹ میں پیسے بھیجنے پر 10 روپے اضافی لے سکتا ہے؟ اگر چہ وہ کسٹمر دوکان پر آیا ہو اور دوکان پر ریٹیلر اکاؤنٹ بھی کمپنی نے بنا کر دیا ہو اور قانونی طور پر بھی اس میں پیچیدگیاں ہیں۔ (مثلا کوئی شخص دوکان پر آتا ہے اور وہ ہم سے اپنے اکاؤنٹ میں پیسے ڈالنے کا کہتا ہے، ہم اس کو جانتے بھی نہیں  اور یہ بھی نہیں معلوم یہ پیسے اس کے پاس کہاں سے آئے؟ کیا پتہ اس کا اپنا اکاؤنٹ بلیک لسٹ ہو؟ جب ہم اس میں اپنے اکاؤنٹ سے پیسے ڈالیں گے تو اپنے اکاؤنٹ سے پیسے بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ میں ا س کو جانتا ہو ں اور وہ ڈیفالٹر ہوا تو میری بھی پکڑ ہو سکتی ہے، کیا شرعا یہ جائز ہے یا نہیں؟
  6. اسی طرح اکاؤنٹ سے پیسے نکالنے پر کمپنی کسٹمر سے 20 روپے فیس کاٹتی ہے، اگر میں رٹیلر اکاؤنٹ سے پیسے نکالتا ہوں تو مجھے وہی 2 روپے کمیشن کی صورت میں ملتا ہے اور 20 روپے کسٹمر  کے اکاؤنٹ سے کٹ کر کمپنی کے پاس چلے جاتے ہیں ۔اگر یہی رقم میں اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کروں تو پورے 20  روپے اور بعض صورتوں میں 10 روپے مجھے منافع ہو جاتا ہے،  کیا یہ جائز ہے؟
  7. جاز کیش اور ایزی پیسہ یہ سودی بینک ہیں،  کیا ان کےسا تھ اس طرح مکمل کام کرنا جائز بھی ہے یا نہیں؟کیونکہ کمیشن کی صورت میں ہمیں منافع ملتا رہتاہے، کیا پتہ وہ منافع کس صورت میں آرہا ہے ؟ان کے سودی ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے پرسنل اکاؤنٹ استعمال کرنے پر جو لون لینا چاہے، کمپنی اس کو کچھ لون بھی دیتی ہے، جو کہ بآسانی کیش ہو جاتا ہے، البتہ اس کی واپسی پر کمپنی کچھ رقم سروس چارجز کہہ کر لیتی ہے، مثلا اگر میں نے پانچ ہزار روپیہ قرض لیا تو اس پر کمپنی چار سو روپیہ سروس چارجز لے گی۔
  8. ایزی لوڈ : جاز ،ٹیلی نار ،یوفون ،زونگ ان کمپنیوں کا ایزی لوڈ بھی دوکان پر رکھا جاتا ہے جو کہ میں اور آپ ہر ایک کی ضرورت ہے ۔کمپنی اس میں بھی دوکاندار کو کمیشن دیتی ہے، مثلا میں کمپنی  کے نمائندے کو 1000 روپے دیتا ہوں تو مجھے واپس لوڈ کی صورت میں 1025 روپے دئے جاتے ہیں جو کہ میں بیچ کر میرے پاس  1000 کے بدلے 1025 ہوگئے کیا یہ سود تو نہیں؟   اگر نہیں تو کیا یہ بلا قباحت جائز ہے ؟کیونکہ ایزی لوڈ کرنے  میں ذریعہٴ آمدن یہی ہے ۔
  9. اکثر لوگ پیکجز کرواتے ہیں جو کہ اسی ایزی لوڈ کی رقم سے کیا جاتا ہے اور کچھ پیکجز ایسے ہوتے  ہیں، کمپنی چاہتی ہے کہ یہ پیکجز زیادہ سے زیادہ لگیں تو ان پر بھی کمپنی دوکاندار کو کمیشن دیتی ہے اور وہ خود بخود ایزی لوڈ کی رقم میں شامل ہو جاتا ہے، کیا یہ  جائز ہے ۔(مثلا:1000  روپے نمایندے کو دیے 1025 روپے کا لوڈ اکاؤنٹ میں آیا،جس میں سے 600 کا ایزی لوڈ کیا اور 400 کے پیکجز کئے اور یہ پیکجز کرنے پر کمپنی نے 15 روپے مزید کمیشن دیا ، اب ٹوٹل کمیشن 40 روپے ہو گیا، کیا یہ  کمیشن لیناجائز ہے؟
  10. کچھ پیکجز ایسے ہوتے ہیں جن کی قیمت کچھ اس طرح ہوتی ہے: 62 روپے کا پیکج ،79 روپے کا پیکج ،365 روپے کا پیکج) اب دوکاندار کسٹمر سے 62 روپے کا بدلے 70 روپے چارج کرتا ہے، 79 والے پیکج پر 80 روپے چارج کرتا ہے، 365 والے پر 370 روپے چارج کرتا ہے، اوپر جو کمیشن کی تفصیل بتائی ہے یہ اس سے الگ رقم ہے اور اگر فکس قیمت لی جائے تو  کام بہت مشکل ہو جاتا ہے۔کمپنی کی طرف سے اس حوالے سےکوئی وضاحت نہیں کی گئی،   لیکن اس پرکمیشن نہیں ہے، بلکہ کمپنی کی طرف سے اس کی قیمت 62 روپے ہی مقرر ہے، اگر کسٹمر اپنے پرسنل اکاؤنٹ سے یا ایزی لوڈ کروا کر  پیکج لگائے تو کمپنی 62 روپے ہی کاٹے گی اور اکثر کسٹمرز کو بتایا بھی نہیں جاتا کہ یہ پیکج 62 کا ہے، ہم آپ سے 70 لے رہے ہیں۔ کیا یہ جائز ہے ؟کسٹمر کو بتا کر یا نہ بتا کر دونوں صورتوں میں کیا حکم ہے ؟
  11. ریلوے اور بس وغیر ہ  کی ٹکٹ کی سہولت بھی کسٹمرز کو اکثر انہیں دوکانوں پر مل جاتی ہے،  اس پر بھی الگ سے پیسے  لئے جاتے ہیں، مثلا ٹکٹ 1600 کی ہے تو 1700 روپے لئے جاتے ہیں اور جب ٹکٹ کی بکنگ کنفرم ہوتی ہے کچھ رقم  جو کہ معمولی سی ہو کاٹی جاتی ہے اور جاز کیش سے پیمنٹ کرنے پر 2 روپے ہی ملتے ہیں۔(مثلا ایک صاحب کی ریلوے کی ٹکٹ کی جو کہ1600 کی ہے، اب جب پیمنٹ  کی جاتی ہے تو ریلوے  والےسروس چارجز کے طور پر مزید 3 یا 4 روپے کاٹتے ہیں، ہم کسٹمر سے 100 روپے ایکسٹرا لے  لیتے ہیں۔اور کسٹمر کو اگر بتا بھی دیا جائے تو وہ خوشی خوشی دینے کو تیار ہوتا ہے ،کیونکہ اگر وہ اسٹیشن جائے گا تو اس کا 100 سے زیادہ خرچ ہوجائے گا  اور وقت الگ سے ضائع ہو گا۔
  12. سائل نے بتایا کہ اس سلسلے میں کمپنی کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی، نہ ہی کمپنی کی طرف سے ٹکٹ بک کروانے سے منع کیا گیا ہے، یہ دراصل ہم پرسنل طور پر ریلوے کی ایپلیکشن ڈاؤن لوڈ کرکے بک کرتے ہیں اور ریلوے کی طرف سے بظاہر کوئی ممانعت ہمارے علم میں نہیں، ہم اس لیے یہ کرتے ہیں کہ آن لائن ٹکٹ ہر شخص بک نہیں کر سکتا، کیونکہ اس میں اچھا خاصا وقت اور مہارت درکار ہوتی ہے، اس لیے ہم لوگوں کویہ سہولت دیتے ہیں اور اس پر سو روپیہ وصول کرتے ہیں۔
  13. جب لوگ ہمارے پاس اپنے اکاؤنٹ سے رقم نکلوانے کے لیے آتے ہیں تو ہم کبھی اپنے پاس موجود رقم اٹھا کر کسٹمر کو دے دیتے ہیں اور ساتھ فی ہزار بیس روپے کٹوتی بھی کرلیتے ہیں،کیونکہ اگر ہم ان کے اکاؤنٹ سے رقم نکال کر دیں تو لازمی طور پر کمپنی بیس روپے فی ہزار کاٹے گی،  جبکہ یہی رقم اگر ہم اپنے پرسنل اکاؤنٹ کے ذریعہ کسی کو آن لائن بھیجیں گے تو کمپنی اس پر کٹوتی نہیں کرے گی، سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا اس طرح بیس روپے کٹوتی کرنا جائز ہے؟
  14. اوپر بیان کی گئی ان تمام تفصیلات کی روشنی میں یہ بتا دیں کیا یہ کام کرنا جائز بھی ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو کیا بغیر کسی قباحت کے جائز ہے؟  کیا علما ء یہ کہیں گے کہ اگر کوئی اور کام مل جائے تو وہ کرلیا جائے اور اس سے بچا جائے یا بالکل جس  طرح سنت کے مطابق تجارت جائز ہے یہ بھی اسی طرح جائز ہے ؟کیونکہ یہ  کام معاشرے  میں بہت زیادہ   ہے اور معاشرے  کی بہت اہم ضرورت ہے ۔ا س کی چھوٹی سی مثال اس  طرح ہے کہ ایک  شخص  رات  کو گیارہ بجے میری دوکان( جو کہ کراچی میں ہے ) پر آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے گھر  پشاور میں بہت ایمرجنسی ہے، یہ رقم میرے گھر بھجنی ہے، میں فورا موبائیل اٹھاتا ہوں اور  مشکل سے 1 منٹ  کے اندر وہ رقم پشاور میں پہنچ جاتی ہے اور اگلے ایک منٹ میں وہاں موجو د شخص اس کو نکلوا کر اپنی ضرورت بھی پوری کرلیتا ہے، اسی  طرح اس  کےبرعکس بھی ہو تا ہے  ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دکانداروں سے لی گئی معلومات کے سلسلہ میں سوالات کے جوابات سے پہلے بطورِ تمہید  دوباتیں جاننا ضروری ہیں:

نمبر1:

کمپنی ایزی پیسہ اور جاز کیش کے لیے دو قسم کے  اکاؤنٹس  کھولتی ہے اور دونوں قسموں  کے اکاؤنٹس کے ذریعے رقم  منتقل کرنے، بجلی اور گیس کے بلز وغیرہ ادا کرنے کا حکم علیحدہ علیحدہ ہے:

الف: ریٹیلر اکاؤنٹ(Retailer Account): ریٹیلر اکاؤنٹ میں کمپنی اور دکاندار کے درمیان شرعی اعتبار سے اجارة الاشخاص (اس میں دکاندار کمپنی کا ملازم اور کمیشن ایجنٹ ہوتا ہے) کا معاملہ منعقد ہوتا ہے اور کمپنی دکاندار کو اپنی کسی بھی قسم کی سروس (خدمت) فراہم کرنے پر ایک مخصوص مقدار میں کمیشن دیتی ہے اور کسٹمر سے اضافی رقم لینے کومنع کرتی ہے اور شرعی اعتبار سے اجارہ کے معاملہ میں طے شدہ جائز شرائط کی رعایت رکھنا فریقین کےذمہ لازم ہوتا ہے، لہذا کمپنی کے کمیشن ایجنٹ ہونے کی حیثیت سے دکاندار کا رقم ٹرانسفر(منتقل)کرنے پر کسٹمر سے اضافی رقم لینا جائز نہیں۔

 ب: پرسنل اکاؤنٹ(Personal Account): پرسنل اکاؤنٹ کھلوانے سے متعلق کمپنی  کی ویب سائٹ پر لکھے گئے اصول وضوابط کے مطالعہ اور بعض دکانداروں کے بتانے پر معلوم ہوا کہ اس اکاؤنٹ میں دکاندار کمپنی کا کمیشن ایجنٹ نہیں ہوتا، اسی لیے کمپنی پرسنل اکاؤنٹ کے ذریعہ رقم ٹرانسفر کرنے پراس کو کوئی کمیشن نہیں دیتی،البتہ کمپنی تبرعاً اپنا سسٹم استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے، نیز پرسنل اکاؤنٹ کے ذریعہ کسی دوسرے شخص کو خدمات فراہم کرنےسے بھی منع  نہیں کرتی، بلکہ پرسنل اکاؤنٹ کھلوانے والا شخص (Account Holder) اپنی طرف سے  کسی بھی شخص کو خدمات فراہم کرنے میں خود مختارہوتا ہے، لہذا جب دکاندار اپنے پرسنل اکاؤنٹ کے ذریعہ کسٹمر کی رقم ٹرانسفر کرتا ہےتو  دکاندار اور کسٹمر کے درمیان اجارة الاشخاص کا معاملہ منعقد ہوتا ہے، جس میں دکاندار کسٹمر کا اجیر(ملازم) بن کر اس کو اپنی خدمات فراہم کرتا ہے، اس لیے دکاندارکااپنے پرسنل اکاؤنٹ کے ذریعہ  رقم ٹرانسفرکرنےپر اپنی خدمت کے عوض کسٹمر سے بطورِ اجرت مناسب مقدار میں اضافی رقم لینا  فی نفسہ جائز ہے، بشرطیکہ کسٹمر کو اس بات کا علم ہو کہ یہ اضافی رقم دکاندار کی اپنی اجرت ہے۔ 

نمبر2:

ایزی لوڈ کے دکاندار کے لیے کمپنی کی طرف سے یہ ضروری ہےکہ وہ ایک مخصوص سم (Sim) اپنے نام رجسٹرڈ کروائے اور پھر اس سم میں کمپنی سے ایزی لوڈ کروائےاور اس ایزی لوڈ  کی  مکمل رقم ایڈوانس ادا کرنا پڑتی ہے، نیز یہ سم کال،ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ کے لیے استعمال نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ سم کسٹمرز کو صرف ایزی لوڈ کرنے کے لیے ہی استعمال کی جا سکتی ہے، البتہ اگر دکاندار یہ ایزی لوڈ اپنی کسی اور سم میں منتقل کرلے تو اس دوسری سم کے ذریعہ کال وغیرہ کی جا سکتی ہے، نیز یہ ایزی لوڈ دکاندار کو کچھ سستے داموں فراہم کیا جاتا ہے، مثلا: ہزار روپے کا ایزی لوڈ کروانے پر کمپنی کی طرف سے ایک ہزار پچیس (1025) روپے کا لوڈ بھیجا جاتا ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں ایزی لوڈ کا معاملہ  شرعاً اجارة الاعيان (چیزیں جیسے گھر وغیرہ کرایہ پر دینا) کا معلوم ہوتا  ہے اور یہاں اجارہ کے دو معاملات علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں:

  1. پہلا معاملہ کمپنی اور دکاندار کے درمیان ہوتا ہے، جس میں دکاندار بڑی رقم مثلا پانچ ہزار یا اس سے کم وبیش رقم کے ذریعہ ایک مخصوص مدت تک کے لیے کمپنی سے اس کا سسٹم (جس میں بوسٹر، تاریں اور کھمبے وغیرہ شامل ہوتے ہیں) استعمال کرنے کی منفعت خریدتا ہے اور منفعت کی خریدوفروخت کو فقہی اصطلاح میں اجارہ کہا جاتا ہے، اس میں کمپنی کی طرف سے دکاندارکو کمیشن کے نام سے جو  زیادہ مقدار میں ایزی لوڈ بھیجا جاتا ہے اس کی شرعی حیثیت ڈسکاؤنٹ کی ہے، کیونکہ دکاندار کمپنی کو بڑی مقدار میں ایڈوانس رقم ادا کرتا ہے، جس کی وجہ سے کمپنی دکاندار کو مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر منفعت فراہم کرتی ہے، جیسا کہ بیع کےمعاملے میں نقد رقم ادا کرنے پر فروخت کنندہ عام طور پر سستے داموں چیز بیچ دیتا ہے۔
  2. اجارے کا دوسرا معاملہ دکاندار اور گاہک کے درمیان ہوتا ہے، جس کو فقہی اصطلاح میں اجارة المستاجَر یا الاجارة من الباطن کہا جاتا ہے، جس کا مطلب اجارہ پر لی گئی چیز کو آگے اجارے پر دینا ہے، مذکورہ صورت میں بھی دکاندار کمپنی کا سسٹم اجارے پر لے کرآگے کسٹمر کو اجارے پر دیتا ہے، البتہ اس میں فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ کے نزدیک اضافی اجرت لینے کے لیے ضروری ہے کہ اجارہ پر لی گئی چیز میں کوئی اضافہ کیا جائے یا یہ کہ اجرت کی جنس تبدیل کر لی جائے، یعنی اگر پہلا اجارہ روپے  کے ذریعہ کیا گیا تھا تو دوسرا اجارہ کسی اور کرنسی جیسے ریال وغیرہ کے ذریعہ کر لیا جائے تو اضافی اجرت لینا جائز ہے، ورنہ جائز نہیں۔ جبکہ ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے نزدیک دوسرے اجارہ میں موجِر کا مطلقاً (کرایہ پر لی گئی چیزمیں کوئی اضافہ اور اجرت کی جنس تبدیل کیے بغیر) اضافی اجرت لینا جائز ہے اور معاصر علمائے کرام نے ضرورت کے پیشِ نظر ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے مسلک پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے، جیسا کہ المعاییر الشرعیہ میں مذکور ہے۔

واضح رہے کہ مروّجہ صورتِ حال کے مطابق ایزی لوڈ کے معاملے میں دکاندار کو شرعاً کمیشن ایجنٹ قرار دینا مشکل ہے، كيونكہ کمپنی کی طرف سے دکاندار کو ایزی لوڈ فراہم کرنے کی شرط یہ ہے کہ دکاندار کمپنی کو ایزی لوڈ کی مکمل رقم ایڈوانس ادا کرے، حالانکہ جب وہ  کمیشن ایجنٹ بن کرکمپنی کی منفعت آگے کسٹمر کو بیچ رہا ہے تو اس سے ایڈوانس رقم لینے کا شرعاً کوئی جواز نہیں بنتا،اس لیے ایڈوانس رقم لینے کی شرط سے اجارہ کا معاملہ شرعاً ناجائز اور فاسد ہو جائے گا، لہذا تصحیحاً للعقد (معاملے کو درست قرار دینے کے لیے) اس معاملے کو اجارة الاشخاص کی بجائے اشیاء کے اجارےپر محمول کیا جائے گا اور ایڈوانس لی گئی رقم کی تکییف ایڈوانس اجرت سے کی جائے گی۔

اس تمہید کے بعد بالترتيب سوالات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں:         

1، 2) صورتِ مسئولہ میں فی بل ادا کرنے پر چونکہ کمپنی کی طرف سے بطورِ کمیشن اضافی رقم دی جاتی ہے اور دکاندارکمپنی کے کمیشن ایجنٹ کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے اگرچہ کمپنی کی طرف سے اس میں کسٹمر سے اضافی رقم لینے کی ممانعت کی تصریح نہیں، مگر تمہید میں ذکر کردہ نمبر2کے مطابق دکاندار ریٹیلر اکاؤنٹکے ذریعہ بل ادا کرنے پر کسٹمر سے کمیشن نہیں لے سکتا، البتہ اپنےذاتی اکاؤنٹ کے ذریعہ بل ادا کرنے پرمناسب مقدار میں اضافی رقم وصول کر سکتا ہے، نیز اس کو ادا کی گئی رقم کی کمی بیشی کے ساتھ مربوط کرنا درست نہیں۔

3) بعض دکانداروں کے معلومات دینے سے معلوم ہوا کہ جاز کیش اور ایزی پیسہ کا کاروبار کرنے کے لیے بڑی مقدار میں رقم اپنے اکاؤنٹ میں رکھوانی پڑتی ہے، مثلا: اگر جاز كيش اور ايزی پیسہ دونوں سےروزانہ اوسطاًپچیس پچیس  ہزار روپیہ ٹرانسفر کیا جائے تو روزانہ پچاس ہزارروپیہ اپنے اکاؤنٹ میں رکھنا ضروری ہو گا، اس طرح ایک ماہ میں پندرہ لاکھ روپیہ ٹرانسفرہوگا، جبکہ کمپنی کی طرف سے ایک ہزار روپیہ ٹرانسفر کرنے پر صرف دو روپے کمیشن دیا جاتا ہے،  اس حساب سے پندرہ  لاکھ روپیہ ٹرانسفر کرنے پر ایک مہینے کا کمیشن صرف تین ہزار روپے بنتا ہے ۔نیز رقم ٹرانسفر کرنے پر دکاندار کی محنت بھی لگتی ہے اور اکاؤنٹ میں رقم جمع کروانے کے لیے اس کوبینک بھی جانا پڑتا ہے، اس کے علاوہ  انٹرنیٹ کے اخراجات بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں، کیونکہ انٹرنیٹ کے بغیر رقم ٹرانسفر نہیں کی جا سکتی۔

مذکورہ بالا تفصیل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اگرچہ کمپنی کی طرف سے دیا جانے والا کمیشن کم ہے، لیکن چونکہ دکاندار کمپنی کا کمیشن ایجنٹ ہے اور کمپنی اس پر اس کو اجرت دیتی ہے، نیز اس میں کمپنی کے ساتھ کیے گئے معاہدہ کی خلاف ورزی کا گناہ بھی  لازم آتا ہے۔ اس لیے رٹیلر اکاؤنٹ کے ذریعہ رقم بھیجنے پر جاز کیش اور ایزی پیسہ کرنے پر دکاندار کا کمیشن کے علاوہ کسٹمر سے  اضافی رقم وصول کرنا جائز نہیں، البتہ  کمیشن کم ہونے پرآپ کمپنی کو درخواست دے سکتے ہیں کہ کمپنی آپ کے کمیشن کی مقدار بڑھائے یا پھر یہ کہ آپ اپنے ذاتی اکاؤنٹ کے ذریعہ رقم بھیج کر کچھ اضافی رقم وصول کر سکتے ہیں۔

4) کمپنی کی ویب سائٹ پرمعاہدہ کی شرائط میں چونکہ اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ اکاؤنٹ ہولڈرذاتی اکاؤنٹ کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرے گا، نیز پرسنل اکاؤنٹ کے ذریعہ رقم ٹرانسفر کرنے پر دکاندار کمپنی کا اجیر اورکمیشن ایجنٹ بھی نہیں ہے، لہذا اپنے پرسنل اکاؤنٹ کے ذریعہ رقم بھیجنے کی صورت میں کسٹمر سے وصول کیے گئے اضافی دس روپے آپ کے لیےحرام نہیں ہوں گے، بشرطیکہ کسٹمر کے علم میں ہو کہ یہ اضافی رقم دکاندار کی اجرت ہے۔

اس کے علاوہ جہاں تک قانونی پیچیدگیوں کا تعلق ہے تو اس کی ذمہ داری آپ پر ہے کہ کسی ایسے شخص کو رقم ٹرانسفر نہ کریں جو کسی جرم کی پاداش میں حکومت کو مطلوب ہو،لیکن اس کی وجہ سے  بھی بہرحال بطورِ اجرت لی گئی اضافی رقم حرام نہیں ہو گی۔                                                                                                                                                                                                                                                                                      

5) اپنے پرسنل اکاؤنٹ سے پیسے نکالنے کر دینے کا بھی حکم یہی ہے کہ کسٹمر سے اضافی لی گئی اجرت حرام نہیں ہو گی، بشرطیکہ گاہک کے علم میں ہو کہ یہ دکاندار کی اجرت ہے، جیسا کہ اس کی تفصیل گزشتہ سوال کے جواب میں ذکر کی گئی ہے۔

6) سوال میں ذکر کی گئی صورت اگرچہ سود پر مشتمل ہے، مگرآپ کو دیا جانے والا کمیشن اس وقت تک حرام شمار نہیں کیا جائے گا جب تک کمپنی کی اکثر آمدن حرام نہیں ہوگی اور معلومات کے مطابق جاز کیش اور ایزی پیسہ کی اکثر آمدن حرام نہیں، کیونکہ بجلی، گیس کے بل ادا کرنے، رقم ٹرانسفر کرنے اور ایزی لوڈ وغیرہ کرنے پر کمپنی جوچارجز وصول کرتی ہے وہ سب جائز ہے، لہذاکمپنی سے اپنی جائز  خدمات کے عوض کمیشن وصول کرنا جائز ہے۔  

7) کمپنی کی طرف سے دیے گئے اضافی پچیس روپے سود میں شامل نہیں، بلکہ تمہید میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق کمپنی سے آپ کا ہزار روپیہ کا لوڈ خریدنے کا معاملہ دراصل اجارے کا معاملہ ہے، کیونکہ کمپنی آپ سے  پیسے وصول کرکے ایک مخصوص مدت تک لائن استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے، مثلا: سو روپے کا ایزی لوڈ کروانے پر پچھتر(75) روپے بیلنس آتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پچھتر(75) روپے  میں جتنے منٹس کال کی جا سکتی ہے، اتنے منٹس (وقت) کے لیے کسٹمر کو کمپنی کی لائن استعمال کرنے کا حق حاصل ہو چکا۔ لہذا آپ کے پاس کمپنی کی طرف سے 1025روپے جو بیلنس آتا ہے وہ حقیقی کرنسی نہیں ہوتی، بلکہ  وہ ایک مخصوص دورانیے کے لیے کمپنی کی لائن استعمال کرنے کا ایک تخمینی وقت ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سوال میں تصریح کے مطابق ایزی لوڈ کے بیلنس کوکیش نہیں کروایا جا سکتا اور نہ ہی کسی اور مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، بلکہ اس کوایزی لوڈ کے طور پر ہی استعمال کیا جا سکتا ہے،اس کے بعد یہی بیلنس کسٹمر کو ٹرانسفر کرنے  پر آپ کو کرنسی کی صورت میں  جو1025روپے ملتے ہیں وہ دراصل کرنسی کے عوض حاصل نہیں ہوتے، بلکہ منفعت کے عوض حاصل ہوتے ہیں، کیونکہ کمپنی کی طرف سے آپ کو منفعت دی گئی تھی، آپ نے وہی منفعت آگے کسٹمر کو دی اور اس کے عوض رقم حاصل کی، لہذا فقہی اعتبار سے یہ معاملہ اجارہ من الباطن کا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اجارہ پر لی گئی چیز کو آگے کرایہ پر دینا  اور شرعاً یہ اجارہ جائز ہے، اورضرورت کے پیشِ نظر  ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے قول کے مطابق اضافی اجرت لینے کی  بھی گنجائش ہے، جیسا کہ تمہید میں تفصیل گزر چکی ہے۔

خلاصہ یہ کہ کمپنی کی طرف سے دیے گئے اضافی پچیس روپے حقیقت میں اضافی منفعت ہے نہ کہ کرنسی اور نقدی کہ جس کو ہزار روپے پر اضافی رقم قرار دے کر سود کی تعریف میں شمار کیا جائے۔

8) کمپنی کی طرف سے دیے گئے اضافی پندرہ روپے بھی کمیشن کا حصہ ہیں، کیونکہ یہ بھی آپ کو کمپنی کی طرف سے سروسز فراہم کرنے کے سلسلہ میں کمیشن کے نام سے اجرت دی جاتی ہے، جس کا وصول کرنا بلاشبہ درست ہے۔ 

9) یہ معاملہ  بھی دراصل اجارہ من الباطن (اجارہ پر لی گئی چیز کو آگے اجارہ پر دینا)  کا ہے اور اجارہ من الباطن میں ضرورت کے پیشِ نظر  ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے قول کے مطابق اضافی اجرت لینے کی گنجائش ہے،  لہذا صورتِ مسئولہ میں  باسٹھ62 روپے والا، اناسی 79روپے والا  پیکج اور دیگر پیکجزلگا کر دینے میں مناسب مقدار میں اضافی رقم لینا جائز ہے، نیز اس میں شرعی اعتبار سے گاہک کو بتانا ضروری نہیں ہے کہ اصل پیکج اتنے کا ہے، کیونکہ جب آپ کمپنی کی منفعت (سسٹم استعمال کرنے) کے مالک بن گئے تو آپ گاہک کو بتائے بغیر اضافی رقم پر لے سکتے ہیں، بشرطیکہ بہت زیادہ  اضافی رقم نہ وصول کی جائے، کیونکہ مارکیٹ ریٹ سےبہت زیادہ نفع اندوزی مروت اور اسلامی اخلاقیات کے خلاف ہے۔

10) دکاندارں سے معلومات لینے پر علم ہوا کہ ریلوے وغیرہ کی ٹکٹیں بک کرکے دینے کے لیے کمپنی کوئی سروسز فراہم نہیں کرتی اور نہ ہی دکانداروں کو اس پر کوئی کمیشن دیا جاتا ہے، اس لیے اس میں دکاندار کمپنی کے وکیل بالاجرة نہیں ہوتا، بلکہ یہ خدمات فراہم کرنا ہر دکاندار کی اپنی صواب دید پر موقوف ہوتا ہے، اسی لیے ہردکاندار یہ ٹکٹوں کی بکنگ کا کام نہیں کرتا، بلکہ بعض  پڑھے لکھے دکاندار ہی یہ کام کرتے ہیں، کیونکہ اس کے لیے مہارت اور تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

لہذا مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں  چونکہ آپ کمپنی کے وکیل نہیں ہیں، بلکہ آپ پرسنل طور پر کسٹمر کو یہ سہولت فراہم کرتے ہیں اور اس میں آپ کو کسٹمر کے لیے کافی محنت بھی کرنا پڑتی ہے، جیسے پرسنل طور پر ریلوے کی ایپ (App)ڈاؤن لوڈ کرنا، گاڑیوں کی ٹائمنگ دیکھ کر سیٹیں منتخب کرنا، اکاؤنٹ کے ذریعہ ریلوے والوں کو رقم بھیجنا اور گاہک کو ٹکٹ کا پرنٹ نکال کر دینا وغیرہ، نیز عام طور پر ہر آدمی کو آن لائن ٹکٹ بک کروانے کا طریقہ بھی معلوم نہیں ہوتا، اس لیے اس صورت میں آپ کا اضافی رقم وصول کرنا جائز ہے،  بشرطیکہ گاہک کے علم میں ہو کہ اتنے روپے  کا ٹکٹ ہے اور اضافی رقم ٹکٹ بک کرنے کی  اجرت ہے۔

11) اگر دکاندار اپنے پاس موجود رقم میں سے کسٹمر کو نقد ادا کرتا ہے تو یہ درحقیقت دکاندار اور کسٹمر کا پرسنل معاملہ ہے، کیونکہ اپنی طرف سے نقد رقم دینے میں دکاندار کمپنی کا کمیشن ایجنٹ نہیں، کیونکہ دکاندار اپنی طرف سے کسٹمر کو رقم دینے کا پابند نہیں، بلکہ اس کا کام صرف اکاؤنٹ سے رقم نکال کر دینا ہے، جس پر فی ہزار بیس روپے کٹوتی کا ہونا یقینی ہے۔لہذا اگر  اس نے گاہک کے اکاؤنٹ سے اپنے پرسنل اکاؤنٹ میں رقم منتقل کرکےگاہک کو اپنی طرف سے رقم دے دی تو اس پر بیس روپے وصول کرنا جائز ہے(خصوصاً جبکہ کمپنی کے ساتھ کیے گئے معاہدہ میں یہ طے نہیں ہوتا کہ دکاندار پرسنل اکاؤنٹ تجارتی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرے گا اور ویب سائٹ پر بھی اس کی صراحت نہیں ہے) کیونکہ اگر کسی ضرورت کے پیشِ نطر دکاندار یہ رقم نکلوائے گا تو کمپنی اس سے بھی یہ رقم کاٹے گی، لہذا مذورہ صورت میں یہ کٹوتی کسٹمر ہی برداشت کرے گا۔

12)  گزشتہ سوالات کے جوابات میں ذکرکی گئی تفصیلات کے مطابق اگر آپ کاروبار کریں اور کسی بھی قسم کی دھوکہ دہی اور غلط بیانی کا ارتکاب نہ کریں تو اس صورت میں آپ کے لیے یہ کاروبار کرنا  درست ہے، البتہ اگر اس میں کسی قسم کے جھوٹ اور غلط بیانی کا ارتکاب کرکے بلا وجہ اضافی رقم وصول کی جائے تو اس صورت میں یہ کاروبار کرنا جائز نہیں۔ نیز جن صورتوں میں آپ کا کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے اور کمپنی معاہدہ کے مطابق آپ کو سروسز فراہم کرنے پر کمیشن بھی دیتی ہے تو اس صورت میں آپ کمپنی کی طرف سے طے شدہ کمیشن کے علاوہ گاہک سے اضافی رقم وصول نہ کریں، تاکہ معاہدہ کی خلاف ورزی کا گناہ لازم نہ آئے۔ 

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 560) دار الفكر-بيروت:
وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.
قال ابن عابدين: (قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين.
البيان في مذهب الإمام الشافعي (7/ 354) أبو الحسين يحيى بن أبي الخير بن سالم العمراني اليمني الشافعي (المتوفى: 558هـ) دار المنهاج – جدة:
[مسألة: المستأجر يؤجر المؤجر وغيره]
إذا استأجر عينًا وقبضها.. فله أن يؤاجرها من المؤاجر، ومن غيره. إذا ثبت هذا: فيجوز أن يؤاجرها بمثل ما استأجرها به، وبأقل منه، وبأكثر منه. وقال أبو حنيفة: (لا يجوز أن يؤاجرها بأكثر منه إلا أن يكون قد أحدث فيها عمارة) . دليلنا: أن كل ما جاز أن يؤاجره بمثل ما استأجره.. جاز أن يؤاجره بأكثر منه، كما لو أحدث فيها عمارة.
                                                                  المعايير الشرعية (ص:241):
يجوز لمن استأجر عينا أن يؤجرها لغير المالك بمثل الأجرة أو بأقل أو بأكثر بأجرة حالة أو مؤجلة (وهو مايسمى التأجير من الباطن) مالم يشترط عليه المالك الامتناع عن الإيجار للغير أوالمحصول على موافقة منه.
درر الحکام فی شرح مجلۃ الأحکام: الکتاب الحادی عشر الوکالة، الباب الثالث،الفصل الأول،المادة:1467 ،ج573/3:،ط:دارالجیل:
)إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ...لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة". 
فقہ البیوع: (۲/۷۵۱) لشيخ الإسلام محمد تقي العثماني، مكتبة معارف القرآن كراتشي:
أن دائرة البرید تتقاضی عمولة من المرسل علی إجراء هذہ العملیة فالمدفوع إلی البرید أکثر مما یدفعہ البرید إلی المرسل إلیہ فکان فی معنی الربا ولهذالسبب أفتی بعض الفقهاء فی الماضی القریب بعدم جواز إرسال النقود بهذالطریق ولکن أفتی کثیر من العلماء المعاصرین بجوازهاعلی أساس أن العمولة التی یتقاضاهاالبرید عمولة مقابل الأعمال الإداریةمن
دفع الاستمارة وتسجیل المبالغ وإرسال الاستمارة أوالبرقیة وغیرهاإلی مکتب البرید فی ید المرسل إلیہ وعلی هذ الأساس جوّز الإمام أشرف علی التهانوی رحمہ اللہ-إرسال المبالغ عن طریق الحوالة البریدیة. وعلى هذا مشى العلماء المعاصرون، مثل فضيلة الدكتور الشيخ وهبة الذحيلي حفظه الله.
والعادة أن عمولة الإرسال تكون مرتبطة بنسبة مئوية من المبلغ. وقد يجعل مكتب البريد شرائح لهذه العمولة، فمثلا: هناك مبلغ مقطوع لإرسال مبلغ أقل من ألف، ومبلغ مقطوع أزيد منه لإرسال ما يبلغ ألفاإلى خمسة الآف، وهكذا، وقد جرى عليه العمل في سائر البلدان من غير نكير، وليس هناك ما يبرر هذا الربط بين المبلغ والعمولة إلا ما ذكره ابن عابدين رحمه الله تعالى في أجرة كتابة الصك حيث جاء في الدرالمختار:
يستحق القاضي الأجر على كتب الوثائق والمحاضر والسجلات قدر ما يجوز لغيره كالمفتي، فإنه يستحق أجر المثل على كتابة الفتوى، لأن الواجب عليه الجواب باللسان  دون الكتابة بالبنان، ومع هذاالكف أولى.
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (7/ 429) دار الكتب العلمية، بيروت:
الفصل السابع: في إجارة المستأجر: قال محمد رحمه الله: وللمستأجر أن يؤاجر البيت المستأجر من غيره، فالأصل عندنا: أن المستأجر يملك الإجارة فيما لا يتفاوت الناس في الانتفاع به؛ وهذا لأن الإجارة لتمليك المنفعة والمستأجر في حق المنفعة قام مقام الآجر،وكما صحت الإجارة من الآجر تصح من المستأجر أيضاً فإن أجره بأكثر مما استأجره به من جنس ذلك ولم يزد في الدار شيء ولا أجر معه شيئاً آخر من ماله مما يجوز عند الإجارة عليه، لا تطيب له الزيادة عند علمائنا رحمهم الله وعند الشافعي تطيب له الزيادة.
                                                                  الكافي في فقه الإمام أحمد (2/ 183) دار الكتب العلمية،بيروت:
وكذلك إجارة المستأجر، ويجوز أن يؤجرها للمؤجر وغيره، كما يجوز بيع المبيع للبائع وغيره، فإن أجرها قبل قبضها، لم يجز، ذكره القاضي؛ لأنها لم تدخل في ضمانه، فلم تجز إجارتها، كبيع الطعام قبل قبضه، ويحتمل الجواز؛ لأن المنافع لا تصير مقبوضة بقبض
العين، فلم يؤثر قبض العين فيها، ويحتمل أن تجوز إجارتها للمؤجر؛ لأنها في قبضه، ولا تجوز من غيره لعدم ذلك، وتجوز إجارتها بمثل الأجرة وزيادة.
البيان في مذهب الإمام الشافعي (7/ 354) أبو الحسين يحيى بن أبي الخير بن سالم العمراني اليمني الشافعي (المتوفى: 558هـ) دار المنهاج،جدة:
[مسألة: المستأجر يؤجر المؤجر وغيره]
إذا استأجر عينًا وقبضها.. فله أن يؤاجرها من المؤاجر، ومن غيره. إذا ثبت هذا: فيجوز أن يؤاجرها بمثل ما استأجرها به، وبأقل منه، وبأكثر منه. وقال أبو حنيفة: (لا يجوز أن يؤاجرها بأكثر منه إلا أن يكون قد أحدث فيها عمارة) . دليلنا: أن كل ما جاز أن يؤاجره بمثل ما استأجره.. جاز أن يؤاجره بأكثر منه، كما لو أحدث فيها عمارة.
المعايير الشرعية: (ص:245):
3/2/4: يجوز أن تتوارد عقود الإجارة لعدة أشخاص على منفعة معينة لعين واحدةومدة محدودة دون تعيين زمن معين لشخص معين، بل يحق لكل منهم استيفاء المنفعة في الزمن الذي يتم تخصيصه له عند الاستخدام تبعا للعرف وهذه الحالة  من صور المهايأة الزمانية في استيفاء المنفعة(Time Sharing).
المعايير الشرعية: (ص:246):
 4/2/4: يجو للمستأجر تشريك آخرين معه فيما ملكه من منافع بتمليكهم حصصا فيها قبل إيجارها من الباطن، فيصبحون معه شركاء في منفعة العين المستأجرة، وبعد تملكهم للمنفعة وتأخيرهم للعين من الباطن يستحق كل شريك حصة من الأجرة بقدر مشاركته.
المعايير الشرعية: (ص:243):
3/3: يجوز لمن استأجر عينا أن يؤجرها لغير المالك بمثل الأجرة أو بأقل أو بأكثر بأجرة حالة أومؤجلة (وهو ما يسمى التأجير من الباطن) مالم يشترط عليه المالك الامتناع عن الإيجار للغير أو الحصول على موافقة منه.

 

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراتشی

8/جمادی الاخری 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب