021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالتی خلع کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے کی صورت میں حمل کا حکم
78408نکاح کا بیاننسب کے ثبوت کا بیان

سوال

میں نے ایک ایسی خاتون سے شادی کی ہے جس نے کورٹ سے خلع کی ڈگری لی ہوئی ہے،جبکہ اس خاتون کا یہ کہنا ہے کہ میرے سابقہ شوہر اس پر راضی نہیں تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ میں کبھی طلاق نہیں دوں گا۔ کورٹ میں جج کے سامنے بھی سابقہ شوہر کا یہ ہی بیان تھا کہ میں ان کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ مزید یہ کہ جب سابقہ شوہر کو پتہ چلا کہ یہ دوسری جگہ شادی کر رہی ہیں تو  تب بھی انہوں نے رابطہ کرکے صلح کی کوشش کی، لیکن اس خاتون کے گھر والے نہیں مانے۔ میری بیوی حاملہ ہے اور حمل کا پہلا مہینہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر نکاح نہیں ہوا تو اس حمل کا کیا حکم ہے؟ اس کو باقی رکھنا چاہیےیا پھر ضائع کر دینا چاہیے؟ اگر ضایع نہیں کرتے تو پیدائش کے بعد یہ بچہ کیا کہلائے گا؟ یعنی یہ بچہ ولدالزناء کہلائے گا یا ثابت النسب ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں چونکہ منکوحة الغیر (کسی شخص کی بیوی) سے نکاح ہوا ہے اور شرعی اعتبار سے یہ نکاح باطل ہے اور شریعت کی رُو سے عورت بدستور پہلے شوہر کے نکاح میں موجود ہے، اس لیے شرعی اصول کے مطابق یہ بچہ پہلے شوہر کا شمار ہو گا، کیونکہ یقینی طور پر کسی شخص سے نسب کا ثبوت مخفی امر ہے، اس لیے شریعت نے ظاہری نکاح پر مدار رکھا ہے، اسی لیے نکاحِ صحیح کے بعد اگر کسی اجنبی شخص سے تعلق کی بناء پر حمل ٹھہر جائے تو بھی شریعت بچے کی نسبت صاحبِ نکاح کی طرف ہی کرتی ہے، بشرطیکہ شوہر بچے کے نسب کا انکار نہ کرے۔

لہذا مذکورہ صورت میں اس حمل سے بچہ پیدا ہونے کی صورت میں اگر پہلا شوہر انکار نہ کرے تو اس بچے کا نسب پہلے شوہر سے ہی ثابت ہو گا، یہ اس وجہ سے نہیں کہ واقعتاً یہ بچہ پہلے شوہرکےنطفہ سے ہے، بلکہ بایں معنی کہ حقیقتِ حال دلیلِ قطعی (یقینی) سے معلوم نہیں اور ظاہری قرینہ شرعاً معتبر نہیں، اس لیے صاحبِ نکاح صاحبِ حق ہے۔ اور اگر وہ انکار کر دے اور عورت بھی اس کی تصدیق کرے کہ یہ اس شوہر کا بچہ نہیں ہے تو اس صورت میں یہ بچہ مجہول النسب (جس کے نسب کا کچھ علم نہ ہو) شمار ہو گا۔

 (کذا فی امداد الفتاوی ملخصاً ج:2:ص:515)

جہاں تک اس حمل کو ضائع کرنے کا تعلق ہے تو عام حالات میں بغیر کسی معتبر عذر کے حمل ضائع کرنا درست نہیں، البتہ مذکورہ صورت میں چونکہ حمل ٹھہرئے ہوئے ابھی صرف پندرہ سولہ دن ہوئے ہیں، نیزایک معتبر ومعقول عذر بھی موجو ہے، اس لیے فی الحال حمل ضائع کرنے کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (5/ 356) دار الفكر، بیروت:
العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز وأما في زماننا يجوز على كل حال وعليه الفتوى كذا في جواهر الأخلاطي.
وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال أما في الحرة فلا يجوز قولا واحدا وأما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع كذا في التتارخانية.
ولا يجوز للمرضعة دفع لبنها للتداوي إن أضر بالصبي كذا في القنية. امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفة أو مضغة أو علقة لم يخلق له عضو۔
فتاوى الشیخ ابن باز: (رقم الفتوي: 9735):
أما بعد: فإسقاط الجنين فيه تفصيل: فإذا كان في الأربعين الأولى فالأمر فيه أوسع، ولا ينبغي إسقاطه، لكن إذا اقتضت المصلحة الشرعية بإسقاطه؛ لمضرة على الأم أو لهذا السبب الذي قرر الأطباء أنه قد يتشوه بأسباب فعلتها الأم فلا حرج في ذلك، أما إذا كان في الطور الثاني أوفي الطور الثالث فلا يجوز إسقاطه، وقد يخطئ الظن ولا يقع ما ظنه الطبيب ولا يحصل التشوه، والأصل حرمة إسقاط الجنين إلا عن مضرة كبرى يخشى منها موت الأم، وهكذا بعد أن تنفخ فيه الروح من باب أولى يحرم إسقاطه؛ لأنه صار إنسانًا فلا يجوز قتله ولا يحل، لكن لو وجدت حالة يخشى منها موت الأم وقد تحقق الأطباء أن بقاءه يسبب موتها فحياتها مقدمة، فيعمل الأطباء ما يستطيعون من الطرق التي يحصل بها خروجه حياً إذا أمكن ذلك.
الشهر الثاني: يُصبح الجَنين فِي الأسبوع الخامس: بطولِ نصف سم وينتج كَميّة مِنَ المُنشطات المَنسِليّة المَشيمِيّة. في الأسبوع السادس: يبدأ قلبًُ الجنين بالنبض مَع تشكّل الحبلِ السرّي والرأس وتشكّل (الأصابع، الأذنين، الأنف، والعينين)، وَيُمكِن سَماعُ دَقّاتِ قلبِ الجنين. في الأسبوع السابع: يَنقَسِمُ قَلبُ الجنين إلى قسمين يمين ويسار. في الأسبوع الثامن: يكتمِلُ الأعضاء الرئيسيّة والأطراف والأجهزة الداخليّة ويصبح طُولِ الجنين 20 ملم، ويتلّقى الغذاء مِن دَمِ الأم عَن طريقِ المَشيمَة۔
ذَهب فقهاء الشافعية إلى ما ذهب إليه فقهاء الحنابلة إلى جواز إسقاط الجنين قبل الاثنين والأربعين يوماً الأولى. ذهب بعض فقهاء الحنفية إلى موافقة ما ذهب إليه فقهاء الشافعية وفقهاء الحنابلة، من جواز إسقاط الجنين قبل مرحلة المضغة[1].

[1]https://mawdoo3.com/

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

12/ جمادی الاولیٰ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب