021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ترکہ کے مشترکہ کاروبار کو بعض ورثا آگے بڑھائیں تو تقسیم کیسے ہوگی؟
78440میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے والد صاحب کا 1987 میں انتقال ہو گیا تھا، اس وقت ان کی بیوہ یعنی ہماری والدہ، چھ بیٹے یعنی ہم چھ بھائی، تین بیٹیاں یعنی ہماری تین بہنیں اور ان کے والدین یعنی ہمارے دادا اور دادی حیات تھے۔ اس وقت ہماری دو بہنوں کی شادیاں ہوچکی تھیں، ایک بھائی بڑے تھے، باقی ہم پانچ بھائی اور ایک بہن چھوٹے تھے۔   

(1)۔۔۔ اس وقت ہمارے ماموں زاد بھائی جو تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں، انہوں نے مفتی صاحبان سے میراث کا مسئلہ معلوم کر کے بتایا کہ دادا، دادی کا اتنا اتنا حصہ بنتا ہے اور بہنوں کا اتنا اتنا۔ چنانچہ والد صاحب کی ذاتی جائیداد جو انہوں نے کراچی میں بنائی تھی یعنی 2  گھر اور  تولیہ کی 2 فیکٹریوں کی مالیت کا حساب لگا کر ان کے والدین یعنی ہمارے دادا، دادی کا حصہ طے کیا گیا۔ ہمارے دادا، دادی بیمار تھے اور ان کو ضرورت بھی نہیں تھی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارا یہ حصہ ہمارے بیٹوں اور بیٹیوں کو دیدیں، چنانچہ ان کے کہنے کے مطابق ان کا وہ حصہ ہم نے اپنے چچاؤں اور پھوپھیوں کو دیدیا، چچاؤں اور پھوپھیوں کا حصہ نقد رقم کی شکل میں دیا گیا، صرف ایک چھوٹے چچا کا کچھ حصہ کیش میں دیا گیا، پھر وہ ہمارے والد صاحب کے دو مکانات میں سے ایک مکان میں بطورِ کرایہ دار رہ رہے تھے تو اس نے کہا کہ آپ لوگ مجھے یہ مکان میرے اس حصے میں دیدیں، اس مکان کی قیمت ان کے حصے سے زیادہ تھی، انہوں نے بتایا کہ اضافی رقم میں آپ کو قسطوں میں دے دوں گا۔ چنانچہ ہم سب بہن بھائیوں اور والدہ نے رضامندی سے اس طرح سے وہ مکان ان کو بیچ دیا، پھر جب انہوں نے قسطوں کی ادائیگی کردی تو ہم سب نے خوشی سے مکان کے کاغذات ان کے حوالے کردئیے۔ اس چھوٹے چچا کو یہ گھر بیچتے وقت ہم سب بالغ تھے۔  

(2)۔۔۔ والد صاحب کی وفات کے فوراً بعد جب ان کے والدین کے حصہ کی مالیت طے کی گئی تو دادا، دادای، چچاؤں اور ہماری والدہ کی موجودگی میں ہماری3 بہنوں کا بھی وراثتی حصہ طے کیا گیا، جو اس وقت 1987 کی ویلیو کے حساب سے شاید دو لاکھ فی بہن طے ہوا، اس وقت ایک بہن چھوٹی تھی اور دو بہنیں بڑی تھیں۔ شاید یہ بات بہنوں کے علم میں لائی گئی ہو یا نہ لائی گئی ہو، لیکن اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی کہ ادائیگی کیسے ہوگی؟ اور ابھی تک ادائیگی نہیں ہوئی۔ بہر حال بہنوں کا جواب اس وقت یہ تھا کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔ انہوں نے یقینا ایسا محبت میں کہا ہوگا؛ کیونکہ اس وقت کیفیت ایسی تھی کہ کچھ پتا نہیں تھا کہ آگے کیا ہوگا کیا نہیں ہوگا؟ کاروبار کامیاب رہے گا یا نہیں؟ بھائیوں کا یہ کہا گیا کہ چونکہ چار بھائی نابالغ ہیں، صرف دو بالغ ہیں، لہٰذا ان کے حصے مقرر نہ کریں، یہ سارے اس گھر اور کاروبار میں شراکت دار رہیں گے۔

 (3)۔۔۔ والد صاحب کی جائیداد کے دو گھروں میں سے ایک گھر کی تفصیل اوپر گزرگئی۔ دوسرا گھر ابھی تک موجود ہے، ہمارے دو بھائی اس میں رہتے ہیں، باقی بھائی مختلف شہروں میں ہیں، لیکن وقتا فوقتا سب وہاں اکٹھے ہوتے رہتے ہیں۔    

(4)۔۔۔ والد صاحب کی دو فیکٹریوں میں سے چھوٹی فیکٹری کو بڑے بھائی نے 1989ء یا 1990ء میں اپنی شادی کے وقت بیچ دیا تھا، اس کے کچھ پیسے اسی بڑی فیکٹری میں لگادئیے تھے، کچھ پیسے ان کی شادی اور باقی اخراجات میں خرچ ہوگئے تھے۔ یہ فیکٹری ان تمام افراد کی رضامندی سے فروخت ہوئی تھی جو اس وقت فیصلہ کرسکتے تھے، یعنی والدہ، بہنیں اور بڑے بھائی۔ 

(5)۔۔۔ چونکہ والد صاحب کے انتقال کے وقت باقی بھائی چھوٹے تھے، اس لیے والدہ اور تمام بہن بھائیوں کی رضامندی سے کاروبار سب سے بڑے بھائی نے سنبھالا اور خوش اسلوبی سے سنبھالا، ان کی موجودگی میں ہمیں شروع میں کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا، ترقی ہوتی رہی، ہماری ساری تعلیم اور خرچے اسی کاروبار سے ہوئے۔ باقی بھائی اپنی تعلیم مکمل کر کے تین بھائی اسی کاروبار میں شامل ہو گئے، جبکہ دو بھائی نوکری کرنے لگ گئے۔ فیکٹری/ کاروبار میں شامل بڑے بھائی سمیت کسی کی کوئی تنخواہ مقرر نہیں تھی، مشترکہ طو پر گھر کے اخراجات چلاتے رہے۔ سب کو اس کاروبار میں حصہ دار سمجھا جاتا تھا۔

 (6)۔۔۔ آگے جاکر کاروباری حالات کی وجہ سے اس فیکٹری اور اس کی زمین کو بیچ کر کراچی میں ہی دوسری جگہ زمین خرید کر کچھ پرانی فیکٹری کے ساز و سامان اور کچھ نئی مشینیں لگا کر نئے نام سے کاروبار (تولیہ فیکٹری) جاری رکھا گیا، اور سب کو حصہ دار سمجھا گیا۔  

(7)۔۔۔ پھر اس نئی جگہ بنائی گئی فیکٹری کو بھی کاروباری نقصانات اور قرضوں کی وجہ سے 2007 میں سب بھائیوں سے پوچھ کر بیچ دیا گیا ، یہ فیکٹری ایک کروڑ ساٹھ لاکھ میں فروخت ہوئی جس میں سے زیادہ پیسہ مارکیٹ کے قرض میں ادا کیا گیا، کچھ قرض پھر بھی باقی رہا۔ انہی پیسوں میں سے سب سے بڑے بھائی سب کی رضامندی سے کچھ پیسے لے کر دوسرے شہر چلے گئے، انہوں نے اپنے لئے وہاں روئی کے ہول سیل کا نیا کاروبار شروع کیا اور کہا کہ والد گرامی کے کام / کاروبار سے میرا اب تعلق نہیں، کراچی کے معاملات تم سنبھالو، سپلائر کو پیمنٹ دینی ہے یا جو کچھ بھی کرنا ہے، سب تم کرو۔ بڑے بھائی جو یہ پیسے لے کر دوسرے شہر گئے تو اس وقت وراثتی حصے سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی تھی، وہ کاروبار سیٹ کرنے کے لیے کچھ پیسے لے کر دوسرے شہر گئے اور کہا کہ یہاں کے کام تم سنبھالو۔ دوسرے شہر میں انہوں نے جو کام شروع کیا، وہ نہ چل سکا، مارکیٹ میں رقم پھنسنے کی وجہ سے سال ڈیڑھ سال بعد اس کام کو ختم کر کے انہوں نے ایک جگہ کرایہ پر لی اور دوسرے بھائی کے ساتھ مل کر ایک اسکول کھولا، اب ان کا اسکول ہے۔  

(8)۔۔۔ بڑے بھائی تو دوسرے شہر چلے گئے، باقی پانچ میں سے تین بھائیوں نے اس فیکٹری کی فروخت سے وصول ہونے والی باقی ماندہ رقم اور اسی فیکٹری کی کچھ مشینوں سے دوسری جگہ کرایہ پر نئے نام (ہمارے والد صاحب کے نام "یوسف ڈائینگ") سے وہی کاروبار انہی کاروباری پارٹیوں (supplier/clients) سے جاری رکھا۔ کاروباری حصہ داری یا نفع نقصان کی بارے میں اب بھی بھائیوں میں کچھ طے نہیں ہوا اور سب بھائی کرایہ کی جگہ پر کاروبار میں خود کو حصہ دار تصور کرتے رہیں۔ باقی دو بھائی کاروباری حالات اور خرچے پورے نہ ہونے کی وجہ سے نوکری کرنے لگ گئے۔  

(9)۔۔۔ بعد میں کاروباری حالات اور ذاتی وجوہات کی وجہ سے ان تین بھائیوں میں سے جو کاروبار دیکھ رہے تھے، سب سے چھوٹے بھائی بیرون ملک چلے گئے۔ باقی دونوں بھائیوں نے اس کاروبار سے اپنے سارے اخراجات کرنے کے علاوہ مارکیٹ کا پرانا قرضہ بھی ادا کیا۔ اس کاروبار کو چلاتے ہوئے ان دونوں بھائیوں نے تمام ذاتی اخراجات کے علاوہ کچھ جائیداد (گھر/ پلاٹ ) وغیرہ ذاتی ناموں سے خریدی، اور ایک ہوٹل میں انویسٹمنٹ کی جس کا کرایہ ان دونوں کو ملتا ہے۔ ہوٹل کی زمین ہمارے بہنوئی کی ہے، اس پر ساری تعمیر ہمارے ان دو بھائیوں نے کی اور فرنیچر بھی انہوں نے لیا، شروع کے تین چار سال ہوٹل کا کاروبار چلایا بھی انہوں نے، بہنوئی کو یہ مہینہ کا کرایہ دیتے تھے۔ چار سال کے بعد اب ایگریمنٹ دوبارہ ہوا ہے، اس میں کاروبار بہنوئی کو دیدیا گیا اور طے ہوا کہ ساٹھ فیصد منافع وہ لیں گے اور چالیس  

فیصد ہمارے ان بھائیوں کو ملتا ہے جو یہ آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔

 جبکہ تین نوکری کرنے والے بھائیوں نے اس دوران فیکٹری سے کسی بھی قسم کا کوئی پیسہ نہیں لیا۔  

(10)۔۔۔ کاروبار کے نفع، نقصان، خرید وفروخت، پرانا کاروبار ختم کرنے اور نیا کاروبار شروع کی جتنی تفصیلات اوپر ذکر کی گئی ہیں، یہ سب کے علم میں تو رہا، لیکن ان تمام مراحل میں کسی مرحلے پر میراث کی تقسیم کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی، نہ ہی یہ کہ پرانی فیکٹری ختم ہوگئی تو اب نئی فیکٹری کے مالک کون ہوں گے، کون نہیں ہوں گے۔ سب بھائی یہی سمجھتے رہیں کہ کاروبار میں نقصان ہوگیا، اب اسی سے یہ لوگ دوسری جگہ کاروبار چلا رہے ہیں، لہٰذا ابھی تک ہم سب بھائی اس کاروبار میں شریک ہیں، گوکہ  انتظامی امور میں ہمارا عمل دخل نہیں ہے۔

اب والد کے گھر اور اس کاروبار میں سب کے وراثتی حصوں سے متعلق سوالات درجِ ذیل ہیں:-

سوال1:- اب وراثت کے کاروبار میں بہنوں کی کیا حیثیت ہوگی؟ کیا وہ اب بھی حصہ دار ہیں؟ کیا وہی پرانا دولاکھ ادا کرنا ہوگا؟ یا نئی مالیت طے کر کے اس حساب سے دینا ہوگا؟ یا اسی دولاکھ کو آج کی مالیت ( روپے یا سونے) کے حساب سے دینا ہوگا؟ ہم سب بھائی اور والدہ اب متفقہ طور پر چاہ رہے ہیں کہ موجودہ جو بھی جائیداد ہے تو اس میں جیسے ہم بھائیوں کا حصہ لگ رہا ہے تو اگر شرعا اجازت ہو اور کوئی قباحت نہ ہو تو ہم نئے سرے سے بہنوں کا نیا حصہ لگاکر ان کو دیں۔ بہنیں میرے خیال میں دونوں صورتوں (وہی پرانا طے شدہ حصہ دینے یا پھر آج کے حساب سے نیا حصہ مقرر کر کے دینے) پر راضی ہوں گی۔  

سوال2:-  والد صاحب کا گھر جو اب بھی موجود ہے، ایک بھائی اس میں رہتے ہیں، ہم سب بھائی وقتا فوقتا اس میں اکھٹے ہوتے رہتے ہیں اور وہاں جاکے رہتے ہیں، وہ ہم سب کے قبضے میں ہے۔ اس کی تقسیم کیسے ہوگی؟ کیا بہنیں اس گھر میں حصہ دار ہوں گی؟

سوال3:- جیسا کہ بیان کیا گیا والد صاحب کا کاروبار ( تولیہ فیکٹری) جس میں ورثا حصہ دار/شرکت دار تھے، اس کو مختلف اوقات میں بیچنے، اور نئی جگہوں اور نئے ناموں سے کاروبار جاری رکھنے کے بعد کیا اب بھی سب اس میں حصہ دار ہوں گے؟ اس کاروبار کے حوالے سے کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی۔ سوال4:- شروع کے کاروباری نقصانات اور قرضوں کے ادائیگی کے بعد کاروبار جو کہ ترقی سے چلتا رہا، اس کو چلانے والے دو بھائیوں نے اس کی ہی آمدنی سے جو پلاٹ وغیرہ خریدے جیساکہ نمبر 9  میں بیان ہوا۔ سوال یہ ہے کہ  فیکٹری کے نقصان میں جانے کے بعد جو دو بھائیوں نے چلائی اور وہ فائدے میں آئی، اس سے خریدی گئی جائیداد اور پلاٹوں میں بھی سب ورثا حصہ دار ہوں؟ اسی طرح انہوں نے اس کاروبار کی رقم سے ہوٹل میں جو انویسٹمنٹ کی ہے اور اس کا کرایہ ان کو مل رہا ہے تو اس ہوٹل اور کرایہ میں بھی باقی ورثاء ان کے ساتھ شریک ہوں گے یا نہیں؟

واضح رہے کہ مذکورہ تمام مراحل میں سے کسی مرحلے پر میراث کی تقسیم کا کوئی ذکر نہیں ہوا، نہ ہی عملا کوئی تقسیم ہوئی۔ وہ دو بھائی یہ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ فیکٹری کو نقصان ہوگیا تھا، اس کے بعد ہم اتنے قرضوں میں تھے، ہم لوگوں نے وہ فیکٹری چلا کے اس کے قرضے ختم کیے ہیں، لہٰذا اب اس کاروبار کے مالک ہم ہی ہیں، آپ بھائیوں کا اس میں حصہ نہیں ہے۔ حالانکہ اس فیکٹری کے جتنے بھی قرضے تھے، اس میں سے ہم نے کچھ نہیں لیا تھا، وہ سارا کاروباری قرضہ تھا اور اس کو اسی کاروبار، اسی نام، اسی گڈول کو چلا کر ختم کیا گیا، اسی فیکٹری کی آمدنی سے ان بھائیوں کے گھر چلتے رہیں، اسی سے انہوں نے یہ جائیدادیں خریدیں، ہم لوگوں نے اس میں سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔

بڑے بھائی نے 2007 میں کچھ رقم لے کر دوسرے شہر میں الگ جو کام شروع کیا تھا اور سال ڈیڑھ سال بعد نقصان کی وجہ سے اس کو بند کر کے جو اسکول شروع کیا ہے، اس سب کا حکم بھی بتادیں کہ یہ صرف ان کو ہوگا یا نہیں؟     

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ صورتِ مسئولہ میں اگر والد صاحب مرحوم کی میراث میں بہنوں کے حصوں کی مالیت لگا کر ان میں سے ہر ایک سے اس کا حصہ خریدا نہیں گیا تھا (اس طور پر کہ انہیں بتایا گیا ہو کہ آپ کا حصہ اتنی رقم کے بدلے میں والدہ اور بھائیوں کا ہوگیا اور انہوں نے اس بات کو قبول کر کے اپنا حصہ اس رقم کے بدلے میں چھوڑ دیا ہو کہ ہم اپنے اپنے حصے کے بدلے میں یہ رقم لے لیں گے) تو بہنوں کو آج کی مالیت کے حساب سے حصہ دینا لازم ہوگا۔ دادا، دادی، چچاؤں، بھائیوں اور والدہ نے اس وقت اپنے طور پر جو حساب کتاب کی ہوگی، اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔  

(2)۔۔۔ سوال نمبر (1) کے جواب میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق اگر بہنوں کا حصہ ان سے باقاعدہ خریدا نہیں گیا تھا تو تینوں بہنیں اس گھر میں حصہ دار ہوں گی۔ گھر کی تقسیم کا طریقۂ کار یہ ہے کہ والدہ کو اس گھر کا آٹھواں (8) حصہ ملے گا۔ والدہ کا آٹھواں (8) حصہ نکالنے کے بعد باقی گھر کے پندرہ (15) حصے کر کے چھ (6) بھائیوں میں سے ہر ایک بھائی کو دو، دو (2، 2) حصے اور تین (3) بہنوں میں سے ہر ایک کو ایک، ایک (1، 1) حصہ ملے گا۔

(3)۔۔۔ والد صاحب مرحوم کے انتقال کے بعد ان کی دونوں فیکٹریاں ان کے ترکہ میں شامل تھیں۔ چھوٹی فیکٹری بیچ کر اس کی جو رقم بڑی فیکٹری میں لگائی گئی تھی، ان کا حکم آگے بڑی فیکٹری کے ضمن میں آجائے گا، جو رقم (والدہ، بہنوں اور بھائیوں سب کے) مشترکہ اخراجات میں خرچ ہوئیں وہ سب کے حصے سے سمجھی جائے گی، لہٰذا اب اس کا حساب نہیں ہوگا، البتہ جو رقم بڑے بھائی کی شادی پر خرچ ہوئی وہ ان کی اجرتِ مثل میں شمار ہوگی جس کی تفصیل آگے نمبر (4) کے تحت آرہی ہے۔  

والد صاحب کے بعد بڑی فیکٹری کو جب بڑے بھائی نے والدہ، بہنوں اور تمام بھائیوں کی رضامندی سے چلایا تو وہ گویا ان سب کی طرف سے بطورِ وکیل کام کر رہا تھا، اسی طرح بعد میں جن جن بھائیوں نے اس کاروبار میں جتنا جتنا عرصہ کام کیا ہے، باقی ورثا کی نسبت سے ان سب کی حیثیت وکیل کی تھی؛ کیونکہ انہوں نے والد صاحب ہی کے کاروبار کو آگے بڑھایا جس میں تمام ورثا شریک تھے۔ لہٰذا والد صاحب کی اس فیکٹری کا یہ کاروبار سوال میں مذکورہ تمام مراحل سے گزرنے کے باوجود تمام ورثا کے درمیان مشترک ہوگا۔

جہاں تک ان بھائیوں کا تعلق ہے جنہوں نے اس کاروبار کو مختلف اوقات میں چلایا ہے یا جو دو بھائی ابھی تک چلا رہے ہیں تو ان کو اپنی محنت کی اجرتِ مثل ملے گی۔ لہٰذا سب سے پہلے ان کو اجرتِ مثل دی جائے گی، اس کے بعد باقی کاروبار ورثا کے درمیان ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔ اجرتِ مثل سے مراد یہ ہے کہ ان میں سے ہر ہر بھائی کی طرح کاروباری صلاحیت و مہارت والا شخص اگر کسی کے ساتھ اتنا عرصہ یہ کام اجرت پر کرتا تو اس کو جو اجرت ملتی، وہ اس بھائی کی اجرتِ مثل کہلائے گی۔ لہٰذا اگر ایک بھائی نے اس کاروبار کو 10 سال چلایا ہو اور دوسرے نے 15 سال، تو پہلے کو 10 سال کی اجرتِ مثل دی جائے گی اور دوسرے کو 15 سال کی اجرت دی جائے گی۔

پھر ان بھائیوں میں سے جن جن بھائیوں نے انفرادی طور پر (شروع میں جب سب شریک تھے اور سب کا خرچہ اس کاروبار سے ہوتا تھا، وہ نہیں) اپنےاپنے گھر کا خرچہ اس کاروبار سے چلایا ہے یا اس کاروبار سے اپنے لیے کچھ رقم لی ہے یا کوئی جائیداد وغیرہ خریدی ہے تو اسے بھی ان کی اجرتِ مثل میں شمار کیا جائے گا، اگر اس کا خرچہ یا اس نے جو رقم وغیرہ اس کاروبار سے لی ہو وہ اجرتِ مثل سے زیادہ بن رہی ہو تو اجرتِ مثل سے زیادہ مالیت ترکہ کا حصہ قرار پائے گا اور تمام ورثا کے درمیان مشترک ہوگا۔ اس کی مزید تفصیل آگے نمبر (4) کے تحت آرہی ہے۔  

 (4)۔۔۔ جواب نمبر (3) میں بیان کردہ تفصیل کے مطابق بڑے بھائی نے چھوٹی فیکٹری بیچنے کے بعد اس کی جتنی رقم صرف اپنی شادی پر لگائی تھی، وہ رقم اس کی اجرتِ مثل میں شمار ہوگی۔ اگر یہ کاروبار چلانے والے دوسرے بھائیوں کی شادیاں بھی اس کاروبار سے ہوئی ہیں تو ان کے شادی کے اخراجات بھی ان کی اجرتِ مثل میں شمار کیے جائیں گے۔ اگر ایسے بھائیوں اور بہنوں کی شادیاں بھی اس کاروبار سے ہوئی ہوں جنہوں نے یہ کاروبار نہیں چلایا  تو ان کی شادیوں کے اخراجات ان کے حصۂ میراث میں شمار کیے جائیں گے۔  

بڑے بھائی نے دوسری مرتبہ فیکٹری کا کام رکنے اور کچھ چیزیں بیچنے کے بعد جو رقم لے کر اپنے لیے دوسرے شہر میں نیا کاروبار شروع کیا تھا، وہ رقم بھی اس کی اجرتِ مثل میں شمار کی جائے گی۔ باقی اس نے اس رقم سے جو کاروبار شروع کیا تھا، اس کا نفع و نقصان اور اس کے بعد اسکول اور اس کا نفع و نقصان اسی کا ہوگا۔ دوسرے ورثا اس الگ کاروبار اور اسکول میں اس بھائی کے ساتھ حصہ دار نہیں ہوں گے۔

اسی طرح 2007 کے بعد سے اب تک اس کاروبار کو چلانے والے دو بھائیوں کو اس پورے دورانیہ اور اس سے پہلے انہوں نے جو کام کیا ہوگا، اس کی اجرتِ مثل ملے گی، تاہم انہوں نے اس دوران اس کاروبار سے جتنے اخراجات کیے ہیں وہ ان کی اجرتِ مثل میں حساب ہوں گے، اگر ان کی اجرتِ مثل اس سے پوری ہوگئی تو اس کاروبار سے انہوں نے جو جائیدادیں لی ہیں وہ تمام ورثا کے درمیان مشترک ہوں گی، اور انہوں نے اس کاروبار سے جو رقم لے کر دوسری جگہ ہوٹل میں لگائی ہے، وہ ان کے ذمے ورثا کا قرض ہوگا جس  میں ہر وارث کو اس کا حصہ دینا لازم ہوگا، باقی ہوٹل کے کاروبار میں ان کا حصہ اور تعمیر و فرنیچر انہی کی ملکیت کہلائے گا۔  لیکن اگر ان کی اجرتِ مثل اخراجات سے پوری نہیں ہوئی تو پھر ہوٹل میں لگائی ہوئی رقم اور ان جائیدادوں سے اجرتِ مثل پوری کی جائے گی، اگر ان سے اجرتِ مثل پوری ہوگئی اور کچھ بچا تو وہ والد صاحب کے ترکہ میں شامل ہو کر تمام ورثا میں تقسیم ہوگا۔ اور اگر اخراجات، اس کاروبار سے لی گئی جائیدادوں اور ہوٹل میں انویسٹ کی گئی رقم سے بھی اجرتِ مثل پوری نہ ہو، بلکہ اجرتِ مثل اس سے زیادہ بن رہی تو پھر موجودہ کاروبار سے پہلے ان کی اجرتِ مثل پوری کی جائے گی، اس کے بعد بقیہ کاروبار ورثا میں تقسیم ہوگا۔     

مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق کام کرنے والے بھائیوں کی اجرتِ مثل نکال کر کاروبار اور اس کاروبار سے خریدی گئی جائیدادوں کی تقسیم نمبر (2) میں بیان کردہ تفصیل کے مطابق ہوگی، یعنی والدہ کو آٹھواں (8) حصہ ملے گا۔ والدہ کا آٹھواں (8) حصہ نکالنے کے بعد باقی کاروبار وغیرہ کے پندرہ (15) حصے کر کے چھ (6) بھائیوں میں سے ہر ایک بھائی کو دو، دو (2، 2) حصے اور تین (3) بہنوں میں سے ہر ایک کو ایک، ایک (1، 1) حصہ ملے گا۔  

حوالہ جات
المحيط البرهاني (8/ 390):
في «مجموع النوازل»: رجل يبيع شيئاً في السوق فاستعان بواحد من أهل السوق على بيعه، فأعانه، ثم طلب منه الأجر، فإن العبرة في ذلك لعادة أهل السوق، فإن كان عادتهم أنهم يعملون بأجر يجب أجر المثل، وإن كان عادتهم أنهم يعملون بغير أجر فلا شيء له.
الدر المختار (6/ 42):
 وفي الأشباه: استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم، وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعمل له.  وفي الدرر: دفع غلامه أو ابنه لحائك مدة كذا ليعلمه النسج  وشرط عليه كل شهر كذا جاز ولو لم يشترط فبعد التعليم طلب كل من المعلم والمولى أجرا من الآخر اعتبر عرف البلدة في ذلك العمل.
رد المحتار (6/ 42):
قوله ( فالعبرة لعادتهم ) أي لعادة أهل السوق، فإن كانوا يعملون بأجر يجب أجر المثل، وإلا فلا. قوله ( اعتبر عرف البلدة الخ ) فإن كان العرف يشهد للأستاذ يحكم بأجر مثل تعليم ذلك العمل،وإن شهد للمولى فأجر مثل الغلام على الأستاذ ، درر.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  11/جمادی الاولیٰ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب