021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قسم کے مسائل میں متکلم کی غرض اور مقصد کا اعتبار نہیں
78473قسم منت اور نذر کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

شوہر نے بیوی سے کہا: "اگر تو نے اپنے بھائی سے بات کی تو تجھے تین طلاق ہے۔"اب اگر وہ بیوی اپنے بھائی سے بات نہ کرے بلکہ اس سے فقط شفقت وپیار لے جیسے سر پہ ہاتھ پھروانا وغیرہ تو کیا حکم ہے ؟  جبکہ متکلم کے عرف میں اس طرح  کا کلام قطع تعلقی کے لیے استعمال ہوتا ہو، نیزاگربیوی اپنے بھائی کےسر پر ہاتھ پھرا چکی ہے اور بھائی نے بہن کی پیشانی کا بوسہ بھی لیا، البتہ زبان سے بات نہیں کی،  تو کیا اس سے تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطورِ تمہید جاننا چاہیے کہ  جب کوئی لفظ قسم اٹھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے تین معانی مراد ہو سکتے ہیں:

1۔ لغوی معنی: لغوی معنی یہ ہے کہ اہلِ لغت نے اس لفظ کو جس معنی کے لیے وضع کیا، جیسے کوئی شخص کہے کہ اللہ کی قسم میں فلاں کے گھر میں قدم نہیں رکھوں گا تو یہاں قدم رکھنے کا لغوی معنی ننگے پاؤں کو گھر کے دروازے کے اندر رکھناہے، چاہے خود داخل ہو یا نہ ہو۔

2۔عرفی معنی: لوگوں کےعرف میں اس لفظ کا جو معنی مراد لیا جاتا ہو، جیسے گھر میں قدم رکھنے سے مراد عرف میں داخل ہونا ہوتا ہے، خواہ وہ کسی بھی طریقے سے داخل ہو، خواہ جوتا پہن کر یا سواری پر سوار ہو کر وغیرہ۔صرف پاؤں رکھنا اور خود داخل نہ ہونا عرفاً داخل ہونا نہیں ہے۔

3۔ مقصودی معنی: مقصودی معنی سے قسم اٹھانے والے کی  وہ غرض اور مقصد مراد ہے جس کے لیے وہ لفظ بولا گیا ہو، جیسے گھرمیں قدم نہ رکھنے کا مقصد  عام طور پرقطع تعلقی اور بول چال ختم کرنا ہوتا ہے۔

فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ کے نزدیک قسم کے مسائل میں لفظ کے مذکورہ بالا تین قسم کے معانی میں سے صرف دوسرا معنی مراد ہوتا ہے، لغوی معنی اور اس لفظ کا مقصودی معنی مراد نہیں ہوتا، اسی لیے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے قسم کے مسائل کو درج ذیل دو اصولوں پر مبنی قرار دیا ہے:

پہلا اصول: پہلا اصول یہ بیان فرمایا ہے کہ "الأیمان مبنیة علی العرف" یعنی قسموں کا مدار عرفی معنی پر ہے، اس اصول کی تشریح یہ ہے کہ لفظ کے صرف لغوی معنی کا اعتبار نہیں ہو گا، بلکہ عرف میں اس لفظ کا جو معنی رائج ہو وہ مراد لیا جائے گا، اگرچہ وہ لفظ کا مجازی معنی ہو، پھر اس لفظ کے لغوی معنی کی طرف نسبت کرتے ہوئے عرف کی وجہ سے کبھی عام معنی مراد ہوتا ہے، جیسے فلاں کے گھر میں قدم نہ رکھنے سے اس کا صرف ملکیتی گھر مراد نہیں، بلکہ عاریت یا کرایہ پر لیا گیا گھر بھی اس میں شامل ہو گا، کیونکہ عرف میں اس کلام سے رہائشی گھر مراد ہوتا ہے، خواہ وہ ملکیتی گھر ہو یا نہ۔

اورکبھی  الفاظ عام ہوتے ہیں، جبکہ عرف میں خاص معنی مراد لیا جاتا ہے، جیسے کوئی شخص کہے کہ میں سر نہیں کھاؤں گا تو اس سے مراد بکرے یا بھینس وغیرہ کا سر مراد ہو گا، چڑیا کا سر کھانے سے حانث نہیں ہوگا۔

دوسرا اصول: دوسرا اصول یہ لکھا ہے کہ "الأيمان مبنية على الألفاظ لا على الأغراض" یعنی قسموں کا مدار الفاظ پر ہوتا ہے نہ کہ اغراض پر۔ اس کے اصول کے تحت علامہ شامی رحمہ اللہ نے الفاظ کی تشریح "الفاظِ عرفیہ" کے ساتھ کی ہے، اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ قسم اٹھانے والااپنے  کلام سے اگردل میں کوئی مخصوص نیت کرتا ہے،جس کا عرفی اعتبار سےبولے گئے  الفاظ میں احتمال نہیں تو ایسی صورت میں اس کے الفاظ ہی معتبر ہوں گے، الفاظ کی دلالت سے خارج جس  معنی کی اس نے نیت کی ہواس کا کوئی اعتبار نہیں۔ جیسے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ اگر کسی نے غصے میں کہا: اللہ کی قسم میں اس شخص سے ایک پیسے کی چیز نہیں خریدوں گا۔ اس کے بعد اس نے دراہم کے بدلے اس سے کوئی چیز خرید لی تو حانث نہیں ہو گا، اگرچہ قسم اٹھانے والے کا مقصد اس شخص سے مکمل طور پر خریداری کی نفی کرنا تھا، مگر چونکہ درہم لفظ فلس(پیسہ) کے مدلول سے خارج ہے، اس لیے دراہم کے ذریعہ خریداری کرنے سے حانث نہیں ہو گا۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار (ص: 285) دار الكتب العلمية:

(الايمان مبنية على الالفاظ لا على الاعراض، فلو) اغتاظ على غيره و (حلف أن لايشتري له شيئا بفلس فاشترى له بدراهم أو أكثر (شيئا لم يحنث).

قال ابن عابدين في رسائله (1 ص 304): كل من هاتين القاعدتين مقيدة بالأخرى، فقولهم: (الأيمان مبنية على العرف) معناه العرف المستفاد من اللفظ لا الخارج عن اللفظ اللازم له. وقولهم: (الأيمان مبنية على الألفاظ لا الأغراض) معناه الألفاظ العرفية. وإذا تعارض الوضع الأصلي للكلمة والوضع العرفي ترجح الوضع العرفي.

البتہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عرف میں بولے گئے  الفاظ  متروک (جن پر عمل چھوڑ دیا گیا ہو) شمار ہوتے ہیں اور عرف میں متکلم کی منوی غرض  (جس  غرض اور مقصدکی اس نے  نیت کی تھی) ہی مراد لی جاتی ہے تو ایسی صورت میں اس کی غرض اور کلام کے مفہوم کے مطابق حکم لگے گا اور شرعاً اسی کو عرفی معنی کہا جائے گا، جیسے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ اگر کسی نے کہا : میں اس چادر والے سے بات نہیں کروں گا، اس شخص نے وہ چادر بیچ دی اور پھر قسم اٹھانے والے نے اس شخص سے بات کر لی تو بھی حانث ہوجائے گا، اگرچہ اب وہ چادر اس کی ملکیت میں نہیں رہی، لیکن چونکہ عرف میں  اس کلام کا مقصد اور غرض چادر والے شخص سے عداوت کی بنیاد پر ترکِ کلام تھا، اس لیےچادر بیچنے کے بعد بھی قسم کا حکم باقی رہے گا۔

فقہائے کرام رحمہم اللہ کی عبارات میں اس طرح کی اور بھی مثالیں موجود ہیں، جیسے یمین الفور میں بھی الفاظ سے قطعِ نظر متکلم کی حالت کا اعتبار کرتے ہوئے اس کی غرض اور مقصد پر حکم لگایا جاتا ہے، کیونکہ عرف میں قسم اسی حالت کے ساتھ مقید مانی جاتی ہے۔

اس تمہید کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر کا مقصد بھائی سے مکمل طور پر قطع تعلقی کرناتھا، لیکن چونکہ فقہائے کرام رحمہم اللہ  کےنزدیک قسم کے مسائل میں قائل کی غرض کا اعتبار نہیں کیا گیا، بلکہ صرف بولے گئے الفاظ کے عرفی معنی ومدلول کا اعتبار کیا گیا ہے اور عرف میں بات کرنے کا معنی زبانی گفتگو کرنے کی صورت میں ہی پایا جاتا ہے، اگرچہ گفتگو بالمشافہہ ہو یا فون پر بہرصورت قسم ٹوٹ کر تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی، کیونکہ فون پر بات کرنا بھی اس لفظ کے عرفی معنی میں شامل ہے، لہذا اگر عورت نے ابھی تک اپنے بھائی سے بات نہیں کی ،بلکہ صرف اس سے اپنے سر پر ہاتھ پھرایا ہے تو اِس سے قسم نہیں ٹوٹی اور نکاح بدستور قائم ہے۔

البتہ چونکہ شوہر نے بھائی سے بات کرنے کے ساتھ تین طلاقوں کو معلق کیا ہے اور عورت نےزندگی میں جان بوجھ کر یابھول کر ایک مرتبہ بھی بات کر لی تو فورا ًتین طلاقیں واقع ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو جائے گی اور فریقین کے درمیان نکاح ختم ہو جائے گا، جس کے بعد رجوع یا دوبارہ نکاح کی بھی گنجائش نہیں ہو گی۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ شوہر بیوی کو ایک طلاقِ بائن دیدے، اس کے بعد عدت ختم ہونے پر عورت اپنے بھائی سے بات کر لے تو شرط پائے جانے کی وجہ سے قسم پوری ہو جائے گی اور عدت ختم ہونے پر عورت کے اجنبیہ ہونے کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہو گی۔ اس کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں،  چونکہ اس طرح دوبارہ نکاح کرنے کے بعد شوہر کو صرف دو طلاق کا حق باقی ہوگا، اس لیےآئندہ طلاق کے معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہو گی۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 743) دار الفكر-بيروت:
(قوله الأيمان مبنية على الألفاظ إلخ) أي الألفاظ العرفية بقرينة ما قبله واحترز به عن القول ببنائها على عرف اللغة أو عرف القرآن ففي حلفه لا يركب دابة ولا يجلس على وتد، لا يحنث بركوبه إنسانا وجلوسه على جبل وإن كان الأول في عرف اللغة دابة، والثاني في القرآن وتدا كما سيأتي وقوله: لا على الأغراض أي المقاصد والنيات، احترز به عن القول ببنائها على النية. فصار الحاصل أن المعتبر إنما هو اللفظ العرفي المسمى، وأما غرض الحالف فإن كان مدلول اللفظ المسمى اعتبر وإن كان زائدا على اللفظ فلا يعتبر تخصيصه بالعرف كما لو حلف لا يأكل رأسا فإنه في العرف اسم لما يكبس في التنور ويباع في الأسواق، وهو رأس الغنم دون رأس العصفور ونحوه، فالغرض العرفي يخصص عمومه، فإذا أطلق ينصرف إلى المتعارف، بخلاف الخارجة عن اللفظ كما لو قال لأجنبية إن دخلت الدار فأنت طالق، فإنه يلغو ولا تصح إرادة الملك أي إن دخلت وأنت في نكاحي وإن كان هو المتعارف لأن ذلك غير مذكور، ودلالة العرف لا تأثير لها في جعل غير الملفوظ ملفوظا.
إذا علمت ذلك فاعلم أنه إذا حلف لا يشتري لإنسان شيئا بفلس فاللفظ المسمى وهو الفلس معناه في اللغة والعرف واحد، وهو القطعة من النحاس المضروبة المعلومة فهو اسم خاص معلوم لا يصدق على الدرهم أو الدينار فإذا اشترى له شيئا بدرهم لا يحنث وإن كان الغرض عرفا أن لا يشتري أيضا بدرهم ولا غيره ولكن ذلك زائد على اللفظ المسمى غير داخل في مدلوله فلا تصح إرادته بلفظ الفلس وكذا لو حلف لا يخرج من الباب، فخرج من السطح لا يحنث، وإن كان الغرض عرفا القرار في الدار وعدم الخروج من السطح أو الطاق أو غيرهما، ولكن ذلك غير المسمى ولا يحنث بالغرض بلا مسمى، وكذا لا يضربه سوطا فضربه بعصا لأن العصا غير مذكورة، وإن كان الغرض لا يؤلمه بأن لا يضربه بعصا ولا غيرها، وكذا ليغدينه بألف فاشترى رغيفا بألف وغداه به لم يحنث وإن كان الغرض أن يغديه بما له قيمة وافية وعلى ذلك مسائل أخرى، ذكرها أيضا في تلخيص الجامع.
البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (4/ 323) دار الكتاب الإسلامي:
والأصل أن الأيمان مبنية على العرف عندنا لا على الحقيقة اللغوية كما نقل عن الشافعي، ولا على الاستعمال القرآني كما عن مالك، ولا على النية مطلقا كما عن أحمد؛ لأن المتكلم إنما يتكلم بالكلام العرفي أعني الألفاظ التي يراد بها معانيها التي وضعت في العرف كما أن العربي حال كونه من أهل اللغة إنما يتكلم بالحقائق اللغوية فوجب صرف ألفاظ المتكلم
إلى ما عهد أنه المراد بها ثم من المشايخ من جرى على هذا الإطلاق فحكم بالفرع الذي ذكره صاحب الذخيرة والمرغيناني، وهو ما إذا حلف لا يهدم بيتا فهدم بيت العنكبوت أنه يحنث بأنه خطأ، ومنهم من قيد حمل الكلام على العرف بما إذا لم يمكن العمل بحقيقته، ولا يخفى أن هذا يصير المعتبر الحقيقة اللغوية إلا ما كان من الألفاظ ليس له وضع لغوي بل أحدثه أهل العرف، وأن ما له وضع لغوي ووضع عرفي يعتبر معناه اللغوي، وإن تكلم به متكلم من أهل العرف، وهذا يهدم قاعدة حمل الأيمان على العرف فإنه لم يصير المعتبر إلا اللغة إلا ما تعذر، وهذا بعيد إذ لا شك أن المتكلم لا يتكلم إلا بالعرف الذي به التخاطب سواء كان عرف اللغة إن كان من أهل اللغة أو غيرها إن كان من غيرها. يعم ما وقع استعماله مشتركا بين أهل اللغة، وأهل العرف تعتبر اللغة على أنها العرف.
وأما الفرع المذكور فالوجه فيه أنه إن كان نواه في عموم بيتا حنث، وإن لم يخطر له وجب أن لا يحنث لانصراف الكلام إلى المتعارف عند إطلاق لفظ بيت وظهر أن مرادنا بانصراف الكلام إلى العرف أنه إذا لم يكن له نية كان موجب الكلام ما هو معنى عرفيا له، وإن كان له نية شيء واللفظ يحتمله انعقد اليمين باعتباره كذا في فتح القدير، وفي الحاوي الحصيري والمعتبر في الأيمان الألفاظ دون الأغراض، وفي الظهيرية من الفصل الثالث من الهبة رجل اغتاظ على غيره فقال إن اشتريت لك بفلس شيئا فامرأته طالق فاشترى له بدرهم شيئا لم يحنث في يمينه فدل على أن العبرة بعموم اللفظ. اهـ.
تحفة الفقهاء (2/ 196) دار الكتب العلمية، بيروت:
إذا علق الطلاق في النكاح ثم وجد الشرط فإن كانت منكوحة يقع الطلاق وتنحل اليمين، وإن كانت مبانة وهي في العدة عند الشرط يقع الطلاق أيضا عندنا لأن المبانة والمختلعة يلحقها صريح الطلاق عندناوإذا انقضت عدتها فوجد الشرط تنحل اليمين لا إلى الجزاء.
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 330) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: " وإن حلف لا يكلم صاحب هذا الطيلسان فباعه ثم كلمه حنث " لأن هذه الإضافة لا تحتمل إلا التعريف لأن الإنسان لا يعادى لمعنى في الطيلسان فصار كما إذا أشار إليه.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

17/جمادى الاولیٰ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب