021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چلتے ہوئے کاروبار میں بطورِ مضاربت سرمایہ لگانے کا حکم، نفع ونقصان اور اخراجات کی تفصیل
78480مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کئی سال پہلے  زید ، عمر اور بکر  نے ایک مشترکہ تجارتی کمپنی کھو لی،   یہ کمپنی آن لائن بزنس  مارکیٹ پلیس (ایمزون )کے   پلیٹ فارم پر آئی فون مو بائل کے خرید و  فروخت  کا کروبار کرتی ہے،  اس کمپنی کا دفتر اسلام آباد میں ہے اور کئی ممالک میں اس کی برانچز ہیں۔ اس کاروبار میں کمپنی کے مالکان کا اپنا سرمایہ بھی ہے اور دوسرے لو گوں نے بھی مضاربت کی صورت میں سرمایہ لگا یا ہے۔ اب تک یہ کاروبار ان شرائط کے مطابق تھا :-

کمپنی کے قواعد وضوابط

  1. پہلی بار کم از کم سرمایہ کاری کی رقم 1,500,000 (پندرہ لاکھ روپے) ہے۔
  2. 100,000  پاکستانی روپیہ پر متوقع اوسط ماہانہ واپسی (نفع) تقریبا 5,000 پاکستانی روپیہ سے 9,000 پاکستانی روپیہ کے درمیان ہوگا۔
  3. ٪20 آپ کے منافع کی رقم پر بطورِ سروس چارجز وصول کیے جائیں گے۔
  4. نئے اراکین کے لیے کم از کم میعاد4 ماہ ہے۔ اگر آپ چار ماہ سے پہلے اپنے فنڈز نکال لیتے ہیں تو آپ کے فنڈز پر ٹیکس لاگو ہوگا۔ (سائل نے فون پر اس شرط کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ چونکہ ہم دبئی سے پیسے بھیجتے ہیں جس پر حکومت ٹیکس کاٹتی ہے، اس لیے یہ شرط لگائی گئی ہے کہ اگر کوئی پیسے دے کر واپس چار ماہ سے پہلے لینا چاہتا ہے تو لے سکتا ہے، لیکن وہاں سے بھیجنے پر حکومت جو ٹیکس لے گی وہ خود اس رکن کو ادا کرنی ہوگی، اس کی رقم سے کاٹی جائے گی، البتہ اگر کوئی چار ماہ کے بعد رقم نکالے تو اس صورت میں ٹیکس کی کٹوتی اس کی رقم سے نہیں ہوگی، بلکہ کمپنی ادا کرے گی)۔   
  5. فنڈز نکالے جانے کے نوٹس کی مدت دو ماہ ہوگی، یعنی اگر آپ فنڈز نکالنا چاہتے ہیں تو ہمیں مطلع کرنا ہوگا، پھر دو ماہ بعد آپ کو اس کے مطابق فنڈز مل جائیں گے۔  (سائل نے فون پر بتایا کہ ان دو ماہ کا نفع اس کو ملے گا)۔
  6. منافع کی تقسیم 2 مہینوں کے بعد ہوگی، اور کلینڈر مہینوں کی 1 سے 10 تاریخ کے درمیان آپ کے کھاتوں میں رقم جمع کردی جائے گی۔
  7. اگر آپ نئے فنڈز جمع کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے فنڈز 3 کام کے دنوں کے بعد کاروبار میں منتقل ہوجائیں گے۔
  8. کوئی نقد لین دین نہیں، صرف آپ کو ان کی رقم بینک اکاؤنٹ میں جمع کرنی ہوگی۔
  9. آن لائن لین دین کے لیے آپ کسی بھی وقت اپنے فنڈز منتقل کرسکتے ہیں۔
  10. دسمبر کے مہینے میں ہماری طرف سے کوئی کام نہیں، مطلب کوئی کام نہیں، کوئی منافع نہیں۔
  11. نفع و نقصان میں ہر سرمایہ دار اپنی رقم کے حساب سے برابر کا شریک ہوگا۔
  12. کمپنی دیوالیہ ہونے کی صورت میں کمپنی سرمایہ واپس کرنے کا پابند نہیں ہوگا۔

اس کاروبار سے متعلق مندرجہ ذیل سوالات میں رہنمائی فرمائیں:-

(1)۔۔۔ ان شرائط میں میں سے شرط نمبر 2 ،   شرط نمبر 3 اور شرط نمبر 11 پر مقامی علماء کا اعتراض ہے کہ یہ شرائظ مضاربت کے اصولوں کے خلاف ہیں۔ شرط نمبر 3 میں اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ کمپنی کے مالکان حاصل شدہ منافع سے 20 فی صد لیتے ہیں۔ اس 20 فی صد میں دفتر کا کرایہ، ملازمین کی تنخواہیں، بیرون ملک کے سفر وغیرہ  برداشت کرتے ہیں ۔ جبکہ 80 فیصد سرمایہ کار (رب المال)کو دیتے ہیں۔ اب کمپنی کے مالکان اس کاروبار کو شریعت کے اصولوں کے مطابق بنانا چاہتے ہیں تاکہ مضاربت کے صحیح اصولوں پر یہ کاروبار ہو۔ درخواست یہ کی جاتی ہے کہ ان شرائظ میں جو شریعت کے اصولوں کے خلاف ہو ان کی نشان دہی کر کے رہنمائی فرمائیں۔

(2)۔۔۔ کیا دفتری اخراجات ، بیرون ملک سفروں کے اخراجات، ٹیکس وغیرہ مشترکہ منافع سے ادا کئے جائیں گے یا یہ اخراجات مضارب یعنی کمپنی کے مالکان برادشت کریں گے۔

(3)۔۔۔ اگر کسی وقت منافع کی بجائے نقصان ہو جائے تو اس کو کس طریقے سے پورا کیا جائے گا۔

(4)۔۔۔ اگر کمپنی دیوالیہ ہو جائے  یا بہت زیادہ نقصان ہو جائے جو منافع سے پورا نہ ہو، تو اس نقصان کو مال کا مالک (رب المال ) پورا کرے گا۔ یا کمپنی (مضارب) بھی اس نقصان کو پورا کرنے کی ذمہ دار ہو گی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مذکورہ معاملہ شرکت اور مضاربت کا مجموعہ ہے۔ زید، عمر اور بکر کا ایک دوسرے کے ساتھ شرکت کا تعلق ہے، جبکہ ان تینوں کا باقی سرمایہ دینے والوں سے مضاربت کا تعلق ہے۔ لہٰذا اس معاملے میں ان دونوں عقود کا لحاظ کیا جائے گا۔ ان تینوں کا جتنا سرمایہ ہوگا، اس کا نفع صرف ان تینوں کو ملے گا جس کو یہ تینوں باہم طے شدہ فیصدی تناسب سے تقسیم کریں گے، جبکہ مضاربت کے طور پر سرمایہ دینے والے لوگوں کے سرمایہ کا نفع درجِ ذیل تفصیل کے مطابق تقسیم ہوگا۔  

اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درجِ ذیل ہیں:-

(1)۔۔۔ بعض شرائط کا حکم:-

  1. اگر شرط نمبر 2 کا مقصد نفع کی تعیین نہیں، بلکہ ایک اندازہ بتانا ہو کہ عام طور سے 5,000 سے 9,000 کے درمیان نفع آتا ہے (جیساکہ سوال میں درج اس شرط کے الفاظ سے بظاہر معلوم ہو رہا ہے) تو یہ شرط مضاربت کے شرعی اصولوں کے خلاف نہیں۔ لیکن اگر نفع کی تعیین مقصود ہو کہ 5,000 نفع آپ کو لازماً ملے گا، باقی 9,000 تک بھی مل سکتا ہے تو پھر یہ شرط شرعا درست نہیں؛ جس کی تفصیل ذیل میں شق (2) کے تحت آرہی ہے۔
  2. شرط نمبر 3 سے متعلق ہے یہ بات سمجھ لیں کہ مضاربت میں دو چیزیں الگ الگ ہوتی ہیں، ایک مضارِب کا نفع میں حصہ، دوسری مضاربت کے کاروبار پر آنے والے اخراجات۔  نفع کے حوالے سے اصول یہ ہے کہ مضاربت میں مضارِب اور سرمایہ دینے والے کا نفع میں حصہ فیصدی اعتبار سے طے کرنا ضروری ہے، منافع میں ان دونوں میں سے کسی کا حصہ بھی لم سم رقم کی شکل میں طے کرنا درست نہیں۔ لہٰذا بطورِ مضاربت سرمایہ دینے والوں سے یہ طے کرنا کہ آپ کے سرمایہ کی جو آمدنی ہوگی، اس میں سے بیس فیصد (٪20) منافع ہم لیں گے اور اسی فیصد (٪80) آپ کو دیں گے، شرعا درست ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں۔ جب مضاربت کے مال سے نفع آئے گا (کم ہو یا زیادہ) تو اسے طے شدہ تناسب سے تقسیم کیا جائے گا، اور اگر کبھی نفع بالکل نہ ہو تو مضارب کو کچھ نہیں ملے گا، ایسی صورت میں وہ مضاربت کے اصل سرمایہ سے کچھ نہیں لے سکتا، نہ ہی سرمایہ دینے والوں سے کوئی مطالبہ کرسکتا ہے۔ جہاں تک مضاربت کے کاروبار پر آنے والے اخراجات کا تعلق ہے تو اس کا حکم آگے سوال نمبر (2) کے جواب میں آرہا ہے۔
  3. شرط نمبر 6 یعنی منافع کی تقسیم دو ماہ بعد کرنے سے متعلق یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ نفع کی حقیقی تقسیم اسی وقت ہوگی جب مضاربت کے کاروبار کی "تنضیضِ حقیقی" یا "تنضیضِ حکمی" کی جائے گی۔ "تنضیضِ حقیقی" کا مطلب یہ ہے کہ جب مضاربت ختم کرنا مقصود ہو تو مضاربت کے کاروبار کے جو اثاثے اور دیون یعنی قرضے ہوں ان سب کو نقد میں تبدیل کیا جائے۔ ہر سرمایہ دینے والے نے جتنا سرمایہ لگایا تھا وہ اسے واپس کردیا جائے، اسی طرح جو اخراجات ہوئے ہوں یا کاروبار میں کوئی نقصان ہوا ہو اس کو منہا کیا جائے، اس کے بعد جو رقم بچ جائے وہ مضاربت کا حقیقی نفع کہلائے گا جو مضارِبین اور ارباب الاموال یعنی سرمایہ دینے والوں کے درمیان طے شدہ  تناسب کے اعتبار سے تقسیم ہوگا۔  اور"تنضیضِ حکمی" کا مطلب یہ ہے کہ مضاربت کے کاروبار کے اثاثوں کو بیچا نہ جائے، بلکہ ان کی قیمت لگائی جائے، اور قیمتکے ساتھ جو نقدی اور دیون ہوں ان کو ملالیا جائے اور ان سب کے مجموعے سے اولاً ہر رب المال کا لگایا ہوا سرمایہ منہا کیا جائے، اسی طرح کاروباری اخراجات اور اگر کوئی نقصان ہوا ہو تو ان کو بھی منہا کیا جائے گا، اس کے بعد جو کچھ بچے وہ مضاربت کا حقیقی نفع کہلائے گا جو طے شدہ فیصد کے حساب سے مضارِبین اور ارباب الاموال کے درمیان تقسیم ہوگا۔ اس طریقے سے نفع کی تقسیم کے بعداگر مضارِبین اور ارباب الاموال مضاربت کو جاری رکھیں تو شرعاً وہ نئے سرے سے مضاربت شمار ہوتی ہے، لہٰذا اگر اس میں نقصان ہوگا تو وہ پہلی مضاربت کے نفع سے پورا نہیں کیا جائے گا۔ مذکورہ بالا دو طریقوں کے بغیر نفع کی حقیقی تقسیم نہیں ہوسکتی۔ لیکن تنضیضِ حقیقی اور تنضیضِ حکمی تک اگر مضارِبین اور ارباب الاموال باہم رضامندی سے ماہانہ (یا وہ جو بھی مدت باہم رضامندی سے طے کرلیں) نفع تقسیم کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن جب تک تنضیضِ حقیقی  (Actual  Liquidation) یا تنضیضِ حکمی (Constructive  Liquidation) نہیں ہوتی اس  وقت تک نفع کی جو تقسیم ہوگی وہ علی الحساب ہوگی، حقیقی تقسیم تنضیضِ حقیقی یا تنضیضِ حکمی کے بعد ہوگی؛ لہٰذا اس وقت سرمایہ دینے والوں کو ان کا دیا ہوا سرمایہ واپس کیا جائے گا، اگر ان کا سرمایہ اس وقت موجود مال سے پورا نہ ہو تو مضاربین اور ارباب الاموال نے جتنا جتنا نفع لیا ہوگا، سب اسے واپس کریں گے، تاکہ پہلے سرمایہ پورا کیا جائے، اس کے بعد اگر کچھ بچے گا تو وہ طے شدہ تناسب سے تقسیم ہوگا، اگر سرمایہ کا نقصان کم ہو تو ہر شخص اپنے نفع کے حساب سے اتنی واپسی کرے گا جس سے تلافی ہوجائے۔   
  4. شرط نمبر 11 اور 12 میں دو باتیں کی گئی ہیں، ایک نفع سے متعلق، دوسری نقصان سے متعلق۔ شرط نمبر 11 میں نفع سے متعلق لکھا گیا ہے کہ ہر سرمایہ دار اپنے سرمایہ کے حساب سے برابر کا شریک ہوگا، یہ بات سرمایہ دینے والوں کے تناظر میں درست ہے، جبکہ مضارِبین (زید، عمر اور بکر) کی طرف سے چونکہ عمل ہوگا، اس لیے ان کے لیے اوپر شق (2) کے تحت ذکر کردہ تفصیل کے مطابق نفع کی تعیین کی جائے گی۔ نقصان سے متعلق تفصیل سوال نمبر (4-3) کے جواب میں آرہی ہے۔  

(2)۔۔۔ کاروبار کے اخراجات کا حکم:

تمہید میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق چونکہ یہ کاروبار شرکت اور مضاربت کا مجموعہ ہے، اس لیے اس کے اخراجات بھی دو حصوں میں تقسیم ہوں گے، کمپنی بنانے والوں (زید، عمر اور بکر) کا جتنا سرمایہ ہوگا، اس کے بقدر اخراجات صرف ان تینوں پر لازم ہوں گے، جبکہ باقی لوگوں نے بطورِ مضاربت جو سرمایہ دیا ہے، اس کے بقدر اخراجات کمپنی بنانے والوں کے ذمے نہیں ہوں گے، بلکہ وہ مالِ مضاربت کے نفع سے نکالے جائیں گے، اس کے بعد جو نفع بچے گا وہ مضارِبین (زید، عمر، بکر) اور سرمایہ دینے والوں کے درمیان طے شدہ تناسب کے مطابق تقسیم ہوگا، اگر مضاربت کے حصے کے اخراجات اس کے حصے کے نفع سے پورے نہ ہوں تو پھر اصل سرمایہ سے پورے کیے جائیں گے۔   

(4-3)۔۔۔ نقصان کا حکم:

مضاربت میں نقصان کا ضابطہ یہ ہے کہ سب سے پہلے نقصان کو نفع سے پورا کیا جائے گا۔ اگر نفع سے نقصان کی تلافی نہ ہو توپھر دیکھا جائے گا کہ کیا یہ نقصان مضارِب کی تعدی (زیادتی) یاتقصیر (کوتاہی) کے بغیر ہوا ہے یا اس کی تعدی اور تقصیر سے ہوا ہے، پہلی صورت میں نقصان رب المال یعنی سرمایہ دینے والے کا سمجھا جائے گا، مضارب اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا، جبکہ دوسری صورت میں مضارب اس کا ذمہ دار ہوگا، لہٰذا اس کی تلافی اس پر لازم ہوگی۔      

صورتِ مسئولہ میں چونکہ یہ کاروبار شرکت اور مضاربت کا مجموعہ ہے، اس لیے نقصان کو کمپنی  مالکان یعنی زید، عمر اور بکر کے سرمایہ اور بطورِ مضاربت مال دینے والے لوگوں کے سرمایہ پر تقسیم کیا جائے گا۔ کمپنی مالکان کے سرمایہ کے مقابلے میں آنے والا نقصان تو بہر صورت وہ خود برداشت کریں گے، جبکہ مالِ مضاربت کے مقابلے میں آنے والے نقصان میں درج بالا ضابطہ پر عمل ہوگا، یعنی دیکھا جائے گا کہ کیا وہ نقصان مضاربین یعنی زید، عمر اور بکر کی تعدی (زیادتی) یا تقصیر (کوتاہی) سے ہوا ہے یا نہیں؟ پہلی صورت میں اس نقصان کا ضمان اور تلافی زید، عمر اور بکر پر لازم ہوگی، جبکہ دوسری صورت میں نقصان سرمایہ دینے والوں کا ہی سمجھا جائے گا، سرمایہ دینے والوں میں سے ہر شخص اپنے اپنے سرمایہ کے بقدر نقصان اٹھائے گا، زید، عمر اور بکر پر اس کا ضمان اور تلافی لازم نہیں ہوگی۔   

حوالہ جات
المجلة (ص: 274):
مادة (1415): المضارب في المضاربة المطلقة لا يكون مأذونا بمجرد عقد المضاربة بخلط مال المضاربة بماله ولا بإعطائه مضاربة، لكن إذا كان في بلدة من عادة المضاربين فيها خلط مال المضاربة بما لهم في المضاربة المطلقة، فيكون المضارب مأذونا أيضا بذلك.
مادة (1417): إذا خلط المضارب مال المضاربة بماله فالربح الحاصل يقسم على مقدار رأس المال، بمعنى أنه يأخذ ربح رأس ماله، وربح مال المضاربة يقسم بينه وبين رب المال على الوجه الذي شرطاه.
مادة 1419: إذا ذهب المضارب بعمل المضاربة إلى محل غير البلدة التي وجد فيها مصروفه بالقدر المعروف من مال المضاربة.
شرح المجلة للعلامة الأتاسي (4/355):
شرح المادة 1419:  …… وذکر فی الدر أنه لو سافر بماله ومال المضاربة أو خلط ماله بمال المضاربة بإذن رب المال أو بمالین لرجلین، أنفق بالحصة، اه.  
بدائع الصنائع (6/ 105):
وأما الذي يستحقه المضارب بالعمل فالذي يستحقه بعمله في مال المضاربة شيئان: أحدهما النفقة، والكلام في النفقة في مواضع: في وجوبها، وفي شرط الوجوب، وفيما فيه النفقة، وفي تفسير النفقة، وفي قدرها، وفيما تحتسب النفقة منه……..وسواء سافر بمال المضاربة وحده أو بماله ومال المضاربة ومال المضاربة لرجل أو رجلين فله النفقة، غير أنه إن سافر بماله ومال المضاربة أو بمالين لرجلين كانت النفقة من المالين بالحصص؛ لأن السفر لأجل المالين، فتكون النفقة فيهما……..  ولو خلط مال المضاربة بماله وقد أذن له في ذلك فالنفقة بالحصص لأن سفره لأجل المالين. وأما ما تحتسب النفقة منه فالنفقة تحتسب من الربح أولًا، إن كان في المال ربح، فإن لم يكن فهي من رأس المال……والثاني ما يستحقه المضارب بعمله في المضاربة الصحيحة هو الربح المسمى، إن كان في المضاربة ربح…….. الخ             
المعاییر الشرعیة، معیار المضاربة (374۔373):
8/7 لا ربح في المضاربة إلا بعد سلامة رأس المال، ومتی حصلت خسارة في عملیات المضاربة جبرت من العملیات الأخری، فالخسارة السابقة یجبرها الربح اللاحق، والعبرة بجملة نتائج الأعمال عند التصفیة. فإذا کانت الخسارة عند تصفیة العملیات أکثر من الربح یحسم رصید الخسارة من رأس المال، ولایتحمل المضارب منه شیئا باعتباره أمینًا ما لم یثبت التعدي أو التقصیر، وإذا کانت المصروفات علی قدر الإیرادات یتسلم رب المال ماله ولیس للمضارب شیئ. ومتی تحقق ربح؛ فإنه یوزع بین الطرفین وفق الاتفاق بینهما.
8/8 یستحق المضارب نصیبه من الربح بمجرد ظهور (تحققه) في عملیات المضاربة، ولکنه ملك غیر مستقر؛ إذ یکون محبوسًا وقایةً لرأس المال، فلا یتأکد إلا بالقسمة عند التنضیض الحقیقی أو الحکمي. ویجوز تقسیم ما ظهر من ربح بین الطرفین تحت الحساب، ویراجع ما دفع مقدما تحت الحساب عند التنضیض الحقیقی أو الحکمي. یوزع الربح بشکل نهائی بناءً علی أساس الثمن الذي تم بیع الموجودات به، وهو ما یعرف بالتضیض الحقیقی، ویجوز أن یوزع الربح علی أساس التنضیض الحکمي، وهو التقویم للموجودات بالقیمة العادلة. وتقاس الذمم المدینة بالقیمة النقدیة المتوقع تحصیلها، أي بعد حسم نسبة الدیون المشکوك في تحصیلها. و لاتؤخذ في قیاس الذمم المدینة القیمة الزمنیة للدین (سعر الفائدة)، ولا مبدأ الحسم علی أساس القیمة الحالیة (أي ما یقابل تخفیض مبلغ الدین لتعجیل سداده).
8/9  إذا خلط المضارب مال المضاربة بماله؛ فإنه یصیر شریکًا بماله ومضاربًا بمال الآخر، ویقسم الربح الحاصل علی المالین، فیأخذ المضارب ربح ماله، ویقسم ربح مال المضاربة بینه وبین رب المال علی الوجه الذي شرطاه.
  المعاییر الشرعیة، معیار الشرکة والمشارکة والشرکات الحدیثة  (332۔331):
3/1/5/9 :    یوزع الربح بشکل نهائی بناءً علی أساس الثمن الذی تم بیع الموجودات به، وهو ما یعرف بالتنضیض الحقیقی. ویجوز أن یوزع الربح علی أساس التنضیض الحکمی وهو التقویم للموجودات بالقیمة العادلة. وتقاس الذمم المدینة بالقیمة النقدیة المتوقع تحصیلها، أی بعد حسم نسبة الدیون المشکوک فی تحصیلها. ولا یوجد فی قیاس الذمم المدینة القیمیة الزمنیة للدین (سعر الفائدة)، ولا مبدأ الحسم علی أساس القیمة الحالیة (أی ما یقابل تخفیض مبلغ الدین لتعجیل سداده). وتثبت المبالغ النقدیة بمقدارها.
3/1/5/10 :  لایجوز توزیع الأرباح بشکل نهائی علی أساس الربح المتوقع، بل علی أساس الربح المتحقق حسب التنضیض الحقیقی أوالحکمی.
3/1/5/11 : یجوز توزیع مبالغ تحت الحساب،قبل التنضیض الحقیقی أوالحکمی،علی أن تتم التسویة لاحقاً مع الالتزام برد الزیادة عن المقدار المستحق فعلاً بعد التنضیض الحقیقی أو الحکمی.
وفی صفحة:358:
مستند جواز توزیع الربح علی أساس التنضیض الحکمی هو: ثبوت جواز العمل بالتقویم شرعاً فی تطبیقات عدیدة، ومنها الزکاة والسرقة، وقوله صلی الله علیه وسلم: "من أعتق شقصاً فی عبد فخلاصه فی ماله إن کان له مال، فإن لم یکن له مال قوم علیه العبد قیمة عدل"
مستند جواز توزیع مبالغ تحت الحساب قبل التنضیض علی أن تتم التسویة لاحقاً مع الالتزام برد الزیادة: أنه لا ضرر فی ذلك علی أحد الشرکاء ما دام هذا المبلغ قابلاً للتسویة.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

  17/جمادی الاولیٰ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب