021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دادا کی میراث کا حکم
81253میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرے دادا کا انتقال ہوئے  تقریبا پندرہ سال    ہوگئے  ہیں، ان کی میراث اب تک تقسیم نہیں ہوئی۔ چار سال پہلے میرے  والد صاحب کا بھی انتقال ہوگیا ہے، کیا دادا کی میراث میں سے ہمیں حصہ ملےگا؟ ہم پانچ بھائی ہیں  اور ایک بہن ہے۔ والد کے انتقال کے وقت ہماری والدہ حیات تھیں۔ 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مورث کے انتقال کے وقت جو ورثاء حیات ہوں، ان کو میراث میں سے حصہ ملتا ہے۔ لہٰذا آپ کے والد صاحب  کو دادا کی میراث میں سے حصہ ملےگا۔

            آپ کے والد  کو دادا سے ملنے والا حصہ اور ان کے  انتقال کے وقت ان کی  ملکیت میں  سونا،  چاندی، نقدی، جائیداد، مکانات، کاروبار، غرض جو کچھ چھوٹا، بڑا ساز و سامان ہے، یا اگر کسی کے ذمہ ان کا قرض تھا، تو وہ سب ان کا ترکہ یعنی میراث ہے ۔اس سے متعلق حکم یہ ہے  کہ سب سے پہلے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں، البتہ اگر یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان اٹھائے ہوں تو پھر انہیں ترکہ سے نہیں نکالا جائے گا ۔اس کے بعد اگر ان  کے ذمے کسی کا قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے۔ اس کے بعد اگر انہوں  نے کسی غیر ِوارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی(1/3) ترکہ کی حد تک اس کو پورا کیا جائے۔ اس کے بعد جو بچ جائے اس کے 88 حصے کر کے ورثاء کو درج ذیل نقشے کے مطابق تقسیم کر دیا جائے۔بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے ،پوتیاں وارث نہیں ہوتے۔

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

 بیوی   

11  حصے

12.5% )ثمن)

بیٹا   1

14 حصے

15.9090%  (عصبہ بنفسہ)

بیٹا    2 

14 حصے

15.9090%  (عصبہ بنفسہ)

 بیٹا     3

14 حصے

15.9090%  (عصبہ بنفسہ)

بیٹا 4

14 حصے

15.9090%  (عصبہ بنفسہ)

بیٹا 5

14 حصے

15.9090%  (عصبہ بنفسہ)

 بیٹی

7 حصے

7.9545%  

(عصبہ بغیرہ)

کل

88 حصے

%100

 

حوالہ جات
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْن} [النساء: 11]
{فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم} [النساء: 12]

محمد فرحان

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

22/صفر الخیر/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فرحان بن محمد سلیم

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے