81519 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | دلال اور ایجنٹ کے احکام |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ :
ایک شخص نیوی میں باورچی ہے یعنی سرکاری نوکری ہے،سرکاری نوکری میں پوسٹنگ ہوتی رہتی ہے، اب جہاں اس کی پوسٹنگ ہوئی وہاں غیر مسلم بھی ہیں اور ان کے لیے حرام کھانا بنانا پڑتا ہے، مثلاً خنزیر وغیرہ اور اسی طرح مسلمانوں کے حلال کھانا بھی بناناپڑتا ہے:
1. کیا ایسی صورت میں مسلمان باورچی کا غیر مسلموں کے لیے کھانا بنانا کیسا ہےاور کیا اس کی آمدنی جائز ہے؟
2. اگر کھانا بنانے سے انکار کرتا ہےتو نوکری سے نکال دیں گے اور فی الحال کوئی دوسرا ذریعہ آمدن بھی نہیں ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں ایسے شخص کا غیر مسلموں کے لیے حرام کھانا بنانا جائز نہیں ہے،اس لیے کہ شریعت میں جس طرح خنزیر کا گوشت، غیر مذبوح جانور اور شراب حرام ہے، بالکل اسی طرح ان چیزوں کا تیار کرنا یا پیش کرنا یا ان کی تیاری میں کسی بھی قسم کا تعاون کرناناجائز اور حرام ہے،اور ایسے حرام کام کی تنخواہ و اجرت بھی ناجائز ہے،البتہ اگر مذکورہ شخص کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ہے تو دو شرطوں کے ساتھ اس ملازمت کو وقتی طور پر جاری رکھ سکتا ہے:
1. ایک بے روزگار آدمی کی طرح اپنے لیے دوسرا جائز کام تلاش کرے۔
2.جب تک دوسرا کام نہ ملے اس حرام کام پر استغفار کرتا رہےاور ہر ماہ محتاط طریقے سے اندازہ لگاکر حرام کام کے بقدر اجرت کو صدقہ بھی کرتا رہے۔
حوالہ جات
القرآن الکریم :
{ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ } [المائدة: 2]
فقہ البیوع(:(1057/2
الحاصل انّ الإجارة فى الخدمة المباحة إنّما تصح إذا كانت أجرتها معلومة با نفرادها. ولا تصح فيما إذا لم تكن أجرتُها معلومة. فإن كان كذلك في خدمات الفنادق والمطاعم والبنوك وشركات التأمين، صارت أجرةُ الموظف فيها مركبة من الحلال والحرام فدخلت فى الصورة القسم الثالث، وحل التعامل . بقدر الحلال. أما إذالم تعرف أجرة الخدمة المباحة على حدتها، فالإجارة فاسدة ولكن الأجير يستحق أجر المثل فى الإجارات الفاسدة، كما صرح به ابن قدامة رحمه الله تعالى بذلك في إجارات فاسدة أخرى وعلى هذا، فإن ما يُقابل أجر المثل للخدمة المباحة فى راتبه ينبغى أن يكون حلالاً. فصار راتبه مخلوطاً من الحلال والحرام في هذه الصورة أيضاً. فينبغى أن يجوز معه التعامل بقدر الحلال.
حاشية ابن عابدين (7/ 153):
وما كان سببا لمحظور فهو محظور ا .
التنبيه على مشكلات الهداية (4/ 390):
منها ما في حديث جابر بن عبد الله رضي الله عنهما "أنه سمع النبي -صلى الله عليه وسلم- يقول: إن الله ورسوله حرم بيع الخمر والميتة والخنزير والأصنام، فقيل: يا رسول الله أرأيت شحوم الميتة؟ فإنها تطلى بها السفن وتدهن بها الجلود، ويستصبح بها الناس، فقال: لا هو حرام، ثم قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن ذلك: قاتل الله اليهود، إن الله لما حرم عليهم الشحوم جملوه ثم باعوه فأكلوا ثمنه" رواه الجماعة، فلو كان النهي يقرر المشروعية لاقتضائه التصور، للزم أن يكون بيع الميتة والخمر والخنزير والأصنام مقرراً في الشرع متصوراً، تنال به نعمة الملك، وقد فرقتم بين البيع الخمر والبيع بها.
عدنان اختر
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
6/ربیع الثانی /1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عدنان اختر بن محمد پرویز اختر | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |