81533 | پانی کی باری سے متعلق مسائل | نہروں اور کاریز کے مسائل |
سوال
ہماری زمینوں سے جو پانی گزرتا ہے ،کیا عام لوگوں کا بھی اس میں حق ہے،کیا ہم عام لوگوں کو اس کے استعمال اور ذخیرہ کرنے سے روک سکتے ہیں یا نہیں؟
تنقیح: سائل نے بتایا کہ اس سے مراد ان کی اپنی زمین میں موجود چشمے سے نکلنے والا پانی ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
وہ پانی جو کسی کی مملوکہ زمین میں موجود چشمے یا کنویں سے نکلتا ہو وہ زمین کے مالک کی ملکیت نہیں ہوتا،البتہ دیگر لوگوں کی بہ نسبت اسے اس کے استعمال کا حق زیادہ ہوتا ہے،جبکہ دیگر لوگوں کو اس میں حق شفہ(یعنی خود پینے،جانوروں کو پلانے،وضوء،غسل اور کپڑے وغیرہ دھونے کے لئے استعمال کا حق)حاصل ہوتا ہے،بشرطیکہ وہاں آس پاس اس کے علاوہ متبادل پانی موجود نہ ہو۔
لہذا مذکورہ صورت میں اگر اس زمین کے قرب وجوار میں پانی موجود ہو اور اس پانی کے استعمال سے روکنے میں انہیں کوئی شدیدحرج نہ ہو تو پھر منع کرنے کی گنجائش ہے،لیکن اگر اس پانی کے استعمال سے روکنے میں قرب وجوار میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو شدیدحرج ہو تو پھر انہیں ذاتی استعمال اور جانوروں کو پلانے سے منع کرنا درست نہیں ہوگا،البتہ کھیت اور باغات کی سیرابی سے منع کرسکتے ہیں اور آپ کو یہ اختیار ہے کہ چاہے تو لوگوں کو زمین میں داخل ہوکر پانی لینے کی اجازت دیں،یا پائب وغیرہ نکال کر زمین سے باہر انہیں پانی مہیا کریں۔
نیز آپ کو اس بات کا بھی اختیار حاصل ہے کہ اپنی ضرورت کو لوگوں کی ضرورت پر مقدم رکھیں،کیونکہ چشمہ کے آپ کے زمین میں ہونے کی وجہ سے آپ کا حق دوسروں پر مقدم ہے۔
حوالہ جات
"بدائع الصنائع " (6/ 188):
"وأما الثاني: الماء الذي يكون في الحياض والآبار والعيون فليس بمملوك لصاحب بل هو مباح في نفسه، سواء كان في أرض مباحة أو مملوكة لكن له حق خاص فيه لأن الماء في الأصل خلق مباحا لقول النبي - عليه الصلاة والسلام –«الناس شركاء في ثلاث الماء والكلأ والنار» والشركة العامة تقتضي الإباحة إلا أنه إذا جعل في إناء وأحرزه به فقد استولى عليه وهو غير مملوك لأحد فيصير مملوكا للمستولي كما في سائر المباحات الغير المملوكة، وإذا لم يوجد ذلك بقي على أصل الإباحة الثابتة بالشرع فلا يجوز بيعه؛ لأن محل البيع هو المال المملوك وليس له أن يمنع الناس من الشفة - وهو الشرب بأنفسهم - وسقي دوابهم منه؛ لأنه مباح لهم.
وقد روي أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - نهى عن منع نبع البئر وهو فضل مائها الذي يخرج منها، فلهم أن يسقوا منها لشفاههم ودوابهم فأما لزروعهم وأشجارهم فله أن يمنع ذلك لما في الإطلاق من إبطال حقه أصلا إلا إذا كان ذلك في أرض مملوكة فلصاحبها أن يمنعهم عن الدخول في أرضه إذا لم يضطروا إليه بأن وجدوا غيره؛ لأن الدخول إضرار به من غير ضرورة فله أن يدفع الضرر عن نفسه وإن لم يجدوا غيره واضطروا وخافوا الهلاك يقال له: إما أن تأذن بالدخول، وإما أن تعطي بنفسك فإن لم يعطهم ومنعهم من الدخول لهم أن يقاتلوه بالسلاح ليأخذوا قدر ما يندفع به الهلاك عنهم والأصل فيه ما روي أن قوما وردوا ماء فسألوا أهله أن يدلوهم على البئر فأبوا وسألوهم أن يعطوهم دلوا فأبوا فقالوا لهم: إن أعناقنا وأعناق مطايانا كادت تقطع فأبوا فذكروا ذلك لسيدنا عمر - رضي ﷲ عنه - فقال: هلا وضعتم فيهم السلاح".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
07/ربیع الثانی1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |