81672/63 | خرید و فروخت کے احکام | سلم اور آرڈر پر بنوانے کے مسائل |
سوال
اسلام علیکم اُمید ہے آپ خیریت سے ہونگے ہم نے ۱۸ جون ۲۰۱۸ کو حیدری کے بازار کی ایک دوکان پر سونا کی بکنگ کاروائی تھی۔ اس وقت گولڈ کی قیمت ۴۸ہزار سے ۵۰ ہزار ک درمیان تھی۔ ہم نے ایڈوانس ک طور پر اپنا ۲.۵ تولہ سونا دے دیا تھا اور اضافی سونے لینے کا معاہدہ طے ہوا۔ ہر ماہ کچھ پیسے دے کر جب معاہدے کے مطابق پیسے پورے ہوجائے تو سامان لے لینگ.لکن ہم بعد میں کافی اُلجھ گئے اور ایک بھی installment نہ دے پائے۔سلیپ میں کسی طرح کی کوئی رقم نہیں لکھی تھی کے ہم اتنے ادا کرینگے.اس طرح ۵ سال گزر گئے اور ہم درمیان میں سعودیہ عرب چلے گئے۔ اس وقت ہم سے سلیپ بھی کھو گئی۔۔۔ اب جب ہم واپس آگئے۔ اور دوکان پر گئے اور بتایا کے ہم سے سلیپ کھو گئی ہے لکن مجھے تاریخ یاد ہے آپ اپنے پاس بھی چیک کر لے.اور کیوں کے ہم نے کوئی پیسے نہیں دیے تو آپ ہمارا سونا واپس کردے۔وہ معائدہ بھی پورا نہیں ہو سکا۔ تو دوکاندار کہتا ہے کہ ہم سے بہی بک کھو گئی ہے ۔ جس میں ریکارڈ موجود تھا۔ تم اس وقت کے حساب سے جو پیسے دیے تھے وہ واپس لے لو ہم سے ہمں یاد نہیں تمہارا سونا کتنا تھا اور نہ ہمارے پاس کوئی ریکارڈ موجود ہے.اس کا شرعی مسئلہ کیا ہو سکتا ہے۔ اس طرح تو ہمارا بہت زیادہ نقصان ہوجائیگا۔ کیوں کے ۱ لاکھ کی کوئی حیثیت نہیں آج کے وقت میں اور ہم نے انہیں رقم دی بھی نہیں سونا دیا جو ہم مانگ رہے ہیں. دوکان در مکرتا نہیں ہے۔ و کہتا ہے آپکی امانت میرے پاس ہے ۔لکن سونا واپس نہیں کرنا چاہ رہا۔ ہمارا نقصان چاہتا ہے۔ جب کے ہم نے بیچ کی راہ نکلی کے ہمیں ۲ تولہ دے دو آدھا تم رکھ لو وہ اس بات پہ بھی نہیں آتا.کہتا ہوں پیسے اس وقت کے حساب سے کاؤنٹ کر ک سونا دے دیگا۔ مطلب میں نے دیے ۲.۵ تولہ وہ اب مجھے ۵ گرام واپس کریگا.مجھے تفصیلی فتویٰ بتا دیں ۔۔۔ یہ معاملہ ہم نے اللہ کا سپرد کیا ہے۔ جو فیصلہ اللہ کی تعلیمات کا مطابق ہوگا مجھے وہ منظور ہے. شکریہ
وضاحت:سائل سے رابطہ کرنےپہ درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں:
- انہوں نے دوکان پہ جاکر سیمپل دیکھ کر سونا پسند کیا اور اس کی بکنگ کرائی جس کی قیمت تقریباً پانچ لاکھ تھی ۔
- یہ اپنا ۲.۵ تولہ سونا لے کر گئے اور اس کی قیمت لگوائی تو وہ اس وقت تقریباً ایک لاکھ پچیس ہزار تھی۔
- قیمت لگوانے کے بعد اس ایک لاکھ پچیس ہزار سے انہوں نے پانچ لاکھ (جو بکنگ کیے گئے سونے کا دینا تھا) میں سے ایک لاکھ پچیس ہزار کی ایڈجسٹمنٹ کروالی ۔بقیہ رقم کے لیے انہوں نے قسطوں کا معاہدہ کیا ،لیکن مدت اور اقساط طے نہیں تھیں، بلکہ باہمی سمجھوتے سے طے ہوا کہ جب اور جتنا آسانی سے ہو قسطیں ادا کریں اور قسطیں پوری ہونے پر بکنگ کیا ہوا سونا لے جائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں آپ نے ۵ لاکھ روپےمیں سونے کی بکنگ کرائی ۔اس کے بعد آپ نے اپنے ۲.۵ تولے سونے کی قیمت ایک لاکھ پچیس ہزار لگوا کر پانچ لاکھ میں سے ایک لاکھ پچیس ہزار کی ایڈجسٹمنٹ کروالی تھی۔باقی رقم قسطوں میں دینا طے ہوئی تھی۔ اب جب یہ معاہدہ پورا نہیں ہوپایا اور دونوں فریق اس کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں تو آپ کا حق ۲.۵ تولے سونے میں نہیں ہے،بلکہ ایک لاکھ پچیس ہزار میں ہے۔ لہٰذا آپ دوکاندار سے صرف ایک لاکھ پچیس ہزار روپے ،یا ان کے بدلے جتنا سونا آتا ہے وہ وصول کرسکتے ہیں۔
حوالہ جات
وفی الہندیۃ:الاستصناع جائز في كل ما جرى التعامل فيه كالقلنسوة والخف والأواني المتخذة من الصفر والنحاس وما أشبه ذلك ……وصورته: أن يقول للخفاف اصنع لي خفا من أديمك يوافق رجلي ويريه رجله بكذا أو يقول للصائغ صغ لي خاتما من فضتك وبين وزنه وصفته بكذا. ) الفتاوى الهندية: 207/3)
وفی درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام:إذا تقايل المتبايعان البيع بعد قبض ثمن المبيع فيجب رد مثل الثمن أو مقداره الذي اتفق عليه حين العقد ،ولو كان المقبوض أجود أو أدنى من ذلك….مثال ذلك:إذا باع رجل ماله من آخر بخمسين ريالا ثم اتفق هو والمشتري على أن يدفع المشتري ثمانية دنانير أو عشرة بدلا من الخمسين ريالا وبعد قبض البائع لهذه الدنانير تقايلا البيع ،فعلى البائع أن يرد إلى المشتري الخمسين ريالا المسماة ثمنا حين العقد ،وليس عليه أن يرد الدنانير التي قبضها؛ لأن قبض البائع للثمانية الدنانير أو العشرة بدلا من الخمسين ريالا عقد آخر لا تعلق له بالبيع والشراء الذي وقع سابقا وليس من قبيل تمليك الدين للمدين. (درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام العدلیۃ:157/1) وفی المعاییر الشرعیۃ:یجوز تاجیل ثمن الاستصناع أو تقسیطہ إلی أقساط مدۃ معلومۃلآجال محددۃأو تعجیل دفعۃ مقدمۃوتسدید باقي الثمن علیٰ دفعات موافقۃمع مواعید التسلیم لأجزاء من المصنوع،ویجوز ربط الأقساط بمراحل الإنجاز إذا کانت تلک المراحل منضبطۃ فی العرف ولا ینشأ عنہا نزاع ).المعاییر الشرعیۃ:المعیار الشرعی رقم 11)
قال العلامۃ تقی العثمانی حفظہ اللہ:الثمن المدفوع مقدما عند إبرام العقدمملوک للصانع یجوز لہ الانتفاع أوالاسترباح بہ ،وتجب علیہ الزکاۃ فیہ،ولکنہ مضمون علیہ،بمعنی: أنہ إذا انفسخ العقد لسبب من الاسباب ، یجب علیہ رد الثمن علی المستصنع،ویکون ربحہ للصانع بحکم الضمان ). فقہ البیوع: 590/1)
ذبیح اللہ لغاری
دارالافتاء ،جامعۃالرشید،کراچی
۹ ربیع الثانی۱۴۴۵ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ذبیح اللہ بن عبد اللہ | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |