03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالتی خلع اور بچی کی پرورش اور تقسیم ترکہ کا حکم
82013طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

شوہر اپنی بیوی کو بہت مارتا پیٹتا تھا اور تنگ کرتا تھا اور نہ ہی نانفقہ/خرچ دیتا تھا جس پر تنگ آ کر بیوی نے شوہر سے مورخہ 2016-08-24 کو عدالتی خلع لے لیا تھا۔ بیوی نے جب خلع لیا تھا، اس وقت اس کے ساتھ اسکی بچی جس کی عمر تقریبا 8 ماہ تھی، اس کے بعد بیوی نے اپنے سابق شوہر پر عدالت میں مقدمہ درج کیا جس میں استدعا کی گئی کہ اس کو اس کے جہیز کا سامان یا اس کی رقم اور 47 گرام سونا اور ساتھ ہی بچی کا خرچ دیا جائے، اس پر معزز عدالت نے مورخہ 2017-12-07 کو سابق شوہر کے خلاف اور بیوی کے حق میں فیصلہ جاری کیا جس کے مطابق سابق شوہر کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنی سابقہ بیوی کو جہیز کے سامان کی رقم مبلغ ایک لاکھ روپے 100000 اور 47 گرام سونا دینے کا پابند ہے اور باپ ہونے کے ناطے بچی کا ماہانہ خرچ 5000 روپے 10 فیصد سالانہ انکریمنٹ کے ساتھ اپنی سابقہ بیوی کو دینے کا پابند ہے، جب تک بچی کی شادی نہیں ہوجاتی۔ عدالتی حکم کے باوجود سابق شوہر نے نہ ہی بچی کا خرچ فراہم کیا اور نہ ہی اپنی سابقہ بیوی کو مندرجہ بالا عدالتی حکم کے مطابق رقم اور 47 گرام سونا ادا کیا، اسی طریقہ سے یہ سلسلہ چلتا رہا اور 7 سال سے زائد گزر گئے ۔ جب سابقہ بیوی شاہدہ ولدیت بابو الدین نے خلع لیا تھا، اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی بچی فائزہ جس کی عمر اس وقت 8 ماہ تھی اپنی سگی بہن خورشیدہ بانو بیوہ محمد ایوب کو اپنی مرضی سے گود دے دیا تھا کیوں کہ خورشیدہ بانو بے اولاد تھی، اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ خورشیدہ بانو نے بچی فائزہ کو بالکل ماں کی طرح پالا اور اس کی تربیت کی تمام طر خرچ خود برداشت کیا، اس کو تعلیم دی اور اس کے تمام روز مرہ کے اخراجات اٹھاتی رہی اور ماں کی طرح بچی کو پیار اور عزت دی اور اپنی جائیداد کا وارث بھی منتخب کیا ۔ بچی فائزہ بھی خورشیدہ بانو کو اپنی ماں کی طرح پیار کرتی ہے اور اسے ماں ہی کا رتبہ دیتی ہے اور دونوں میں بہت پیار ہے اور دونوں ایک دوسرے کے بنا نہیں رہ سکتی۔ شاہدہ ولدیت بابو الدین 2022-12-31 کو انتقال کر گئی ،سابقہ شوہر کو جب اپنی سابقہ بیوی کے انتقال کا پتا چلا تو اس نے لالچ کی بنیاد پر بچی فائزہ جس کی موجودہ عمر تقریبا 7 سال سے زائد ہے، خورشیدہ بانو سے عدالت کے ذریعہ واپس لے لیاتاکہ مندربالا عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرنا پڑے اور سابقہ بیوی اور بچی کا تمام خرچ ہڑپ کر سکے ۔ نوٹ: سابق شوہر نے خلع کے فورا بعد دوسری شادی کر لی تھی اور اس کی دوسری بیوی سے اولاد بھی ہے اس سات سال کے دورانیوں میں سابق شوہر نے نہ ہی بچی سے ایک بار بھی ملنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس کا حال احوال لیا ،یہاں تک کہ سابق شوہر بمعہ اہل و عیال بچی سے بالکل لا تعلق رہے اور بچی نے بھی نہ ہی اپنے باپ کو جانتی تھی اور نہ ہی اس کے خاندان کو اور نہ ہی کسی قسم کا خرچ فراہم کیا اور باپ ہونے کے فرض سے بالکل غافل رہا ۔اب چند سؤال جواب کے لیے پیش خدمت ہیں:

 1. جس باپ نے بچی کی پیدائش سے اور اس کی موجودہ عمر تقریبا 7 سال تک کوئی فرض ادا نہیں کیا اور نہ ہی کسی قسم کا خرچ فراہم کیا ،ایسےباپ پر شرعی  کیاحکم لاگو ہے؟

 2. خورشیدہ بانو( جوکہ شاہدہ کی سگی بہن ہے۔)نے بچی کو اس کی 8 ماہ کی عمر سے 7 سال کی عمر تک ماں کی طرح پالا اس کے تمام اخراجات اٹھائے خورشیدہ بانو کے لیے کیا شرعی حکم لاگو ہے؟

 3. اس وقت شاہدہ (مرحومہ) کی وراثت میں عدالتی حکم کے مطابق 100000 ایک لاکھ روپے اور 47 گرام سونا موجود ہے اس کا شرعی حقدار کون ہے؟

 4. جب کہ شاہدہ کے وارثان نے ۱) شانی (بہن)، ۲) محمد علی (بھائی )، ۳) محمد فرید (بھائی)، ۴) محمد شاہد ب(بھائی)، ۵) محمد ساجد (بھائی)، ۶) خورشیدہ بانو (بہن)، ۷) بیٹی فائزہ عمر تقریبا 7 سال موجود ہے،شاہدہ کی وراثت کی تقسیم کا شرعی حکم کیا ہوگا؟

 5. سابقہ شوہر نے بچی کے باپ ہونے کا کوئی فرض ادا نہیں کیا اور نہ اس دورانیہ میں بچی کو دیکھا اور نہ اس کا حال و احوال اور نہ ہی اس کو ایک روپیہ بھی خرچ فراہم کیا اس صورت میں باپ شرعی طور پر بچی کو رکھنے کا حقدار ہے؟

 6. خورشیدہ بان جس نےبچی کی تقریبا 7 سال سے زائد پرورش کی، نشونما کی، تعلیم حاصل کرائی اور تمام معاملات زندگی کے اخراجات برداشت کیے اور ماں کی طرح پیار اور عزت دی اور اپنا وارث منتخب کیا، اس صورت میں خورشیدہ بانو اس کو اپنے ساتھ شرعی طور پر رکھنے کی حقدار ہے؟

 7. خورشیدہ بانو کی شرعی طور پر بچی کےباپ سے تمام اخراجات سابقہ موجودہ اور آنے والے تمام اخراجات حاصل کرسکتی ہے؟

 8. مندرجہ بالا باپ اور خورشیدہ بانو (سگی خالہ) کے کردار کو اور خدمات کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے قرآن و سنت اور شرح کی روشنی میں بچی پر کس کا حق لاگو ہوگا ؟ معزز مفتیان کرام سے مؤدبانہ گذارش ہے کہ قرآن و سنت اور شرع کی روشنی میں مندرجہ بالا مسئلہ پر غور کیا جائے اور مندرجہ بالا سوالات کے جوابات قرآن و سنت اور شرع کی روشنی میں دیئے جائیں اور باپ کے کردار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بچی کے مستقبل کا فیصلہ قرآن و سنت اور شرع کی روشنی میں تحریری طور پر دیا جائے تاکہ بچی کے بہتر مستقبل کے لیے راہ نما ثابت ہو۔ معزز عدالت میں بچی کی (کسٹڈی) کا مقدمہ زیر بحث ہے، عدالت کی رہنمائی کے لئے جامعہ کا تفصیلی فتویٰ فراہم کیا جائے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱و ۸۔عدالتی خلع یک طرفہ طور ہونے(یعنی شوہر کی مرضی کے بغیر ہونے) کی وجہ سے شرعا معتبر نہیں۔

بچی کا خرچ چونکہ والد کے ذمہ ہے،بالخصوص جبکہ عدالت نے فیصلہ بھی کردیا ہے،لہذا اس کا بچی کا خرچ نہ دینا گناہ ہے جس سے توبہ لازم ہے اور خرچ دینا لازم ہے۔

۲و۷۔خورشیدبانونےجس قدر خرچ کیاہے،اگروہ قرض کی نیت سےہواورعدالت کے فیصلہ کے مطابق ہو تو وہ اس کا مطالبہ کرسکتی ہے، ورنہ( قرض کی نیت نہ تھی یا نیت تو تھی لیکن عدالت کی اجازت سے نہ ہو، بلکہ ذاتی طور پر ہو) ایسی صورت میں وہ خرچ کردہ رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔

۳و۴۔اس کے حقدار مرحومہ کے شرعی وارث ہیں اورطریقہ تقسیم وراثت یہ ہے کہ اول مرحومہ کے ترکہ سے اس کےکفن وتدفین کے اخراجات ادا کئے جائیں گے، بشرطیکہ کسی وارث نے اپنی طرف سے ادا نہ کئے ہوں، اس کے بعد اس کے ذمہ واجب  حقوق اگر ہوں تو ان کو ادا کیا جائے گا،( البتہ حقوق اللہ مثلا نمازوں،روزوں کا فدیہ دینے کی شرط یہ ہے کہ میت نےاپنی زندگی میں ادائیگی کی وصیت کی ہو، ورنہ ادائیگی لازم نہیں،لیکن اگر کوئی وارث اپنی ذاتی ملکیت سے ادا کردے تو یہ بھی جائز ہے)اس کے بعد اگر اس نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی تک اس کو پورا کیا جائے گا۔ اس کےبعدکل ترکہ  کاچوتھائی(25فیصد)شوہرکواورنصف(50فیصد) بیٹی کو ملے گا اور باقی مال دس برابرحصوں میں تقسیم ہو گا اور ہر بھائی کو دو دو حصے(5فیصد) اور ہر بہن کو ایک حصہ(2٫5فیصد) ملے گا۔

۵و۶۔چونکہ لڑکی  کی حق حضانت(پرورش) کی مدت نو سال عمر ہونے تک ہے اورجب تک والدہ  زندہ ہو،(خواہ نکاح میں ہو یا نکاح ختم ہونے کے بعد)یہ بچند شرائط  سب سے پہلے اسی کا حق ہے، اس کی عدم موجودگی یا شرائط کے پورے نہ ہونے کی صورت میں دیگر رشتہ داروں کے پاس بالترتیب رہے گی اور نو سال کے بعد والد کے  پرورش میں آئے گی،اگر والدہ کےعلاوہ(کسی بھی درجہ کی نانی ،دادی،بہن،بھانجی میں سے)کوئی نہیں توایسی صورت میں خالہ کوپروروش کاحق ہے،یااس قسم کےیگررشتہ دار تھےتوسہی، لیکن ان میں سے کوئی پرورش کی ذمہ داری لینے کوتیار نہ ہوں یاان کی پرورش کرنے میں بچی کی دینی یادنیوی مصالح فوت ہوتےہوں توایسی صورت میں بھی خالہ کولینےکاحق ہے۔

صورت مسؤولہ میں چونکہ والدہ نے خود اپنی زندگی میں اپنا حق حضانت  اپنی بہن کو حوالہ کیا ہے، لہذا خالہ کا بچی کو نو سال تک زیر تربیت رکھنا بطور حق شرعی شرعا جائز ہے،بشرطیکہ اس کا شوہر بچی کا محرم ہو اور اس کی تربیت وکفالت میں رہنے سے بچی کو دینی یا دنیوی لحاظ سے کوئی بھی نقصان یا ضرر لاحق نہ ہوتا ہو اور نو سال کے بعد یہ بچی اس کے والد کو اس شرط پر حوالہ کی جائے گی کہ اس کی کفالت اور تربیت دینی اور دنیوی لحاظ سے بچی کے لیے مضرونقصان دہ نہ ہو،ورنہ عدالت کے فیصلہ یا پنچائیت کے فیصلہ کی روشنی میں کسی ایسے شخص  کو(خواہ وہ خالہ ہی کیوں نہ ہو) کو حوالہ کی جائے گی جو اس کو مذکور شرائط کے مطابق رکھ سکے۔

حوالہ جات

۔۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۳جمادی الاولی ۱۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب