021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈموٹ میں نماز جمعہ کا قیام
82012نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

استفتاء برائے قیام جمعہ (مسجد عمر خطاب ،شہوٹ ڈموٹ )

کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام وعلماء دین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں؟

ڈموٹ کی آبادی آٹھ بڑے محلوں پرمشتمل ہے ۔ ندی کی ایک طرف شہوٹ اور اس کے Sub محلےہیں، جبکہ ندی کے دوسرے پار سات بڑے محلے موجود ہیں۔

محلہ شہوٹ ڈموٹ کا پہلا محلہ ہے ۔ محلہ شہوٹ کے محل وقوع میں دیگر چھ چھوٹے (Sub) محلے ( گام، گلتی زبان میں) ہیں ۔ جن کا الحاق محلہ شہوٹ سے ہوتا ہے ۔شہوٹ کی دیگر Sub محلوں کے ساتھ آبادی 2300 نفوس بنتی ہے جس میں جمعہ کی ادائیگی کیلئے فتوی مطلوب ہے۔شہوٹ میں مندرجہ ذیل ضروریات زندگی میسر ہیں۔

1۔لڑکوں کا ہائی سکول موجود ہے۔ انٹر کالج کی منظوری ہو چکی ہے اور بلڈنگ کا کام جاری ہے ۔

2۔ بنین کا مدرسہ موجود ہے ،جس میں حفظ تک تعلیم دی جاتی ہے۔ اور بنات کا مدرسہ ہے جس میں حفظ سے لیکر درجہ عالمیہ تک تعلیم دی جاتی ہے۔

3۔۔ سرکاری ڈسپنسری اور وٹرنری ہسپتال۔

4۔۔ محکمہ زراعت کی فروٹ نرسری۔

5۔۔ 1 میگاواٹ بجلی گھر۔

6۔شہوٹ محلہ کے Sub محلوں سمیت تعدادی30 دکانیں موجود ہیں جن میں اشیاء خوردونوش ، دوعددمیڈیکل اسٹورز ، گیس،سلنڈر کی دوکان ،مرغی کی دکان ،ٹیلر کی دوکان موجود ہیں ۔ اور ایک لکڑ کا کارخانہ بھی موجود ہے۔ جس میں فرنیچر وغیرہ بنائے جاتے ہیں ۔

7۔جس مسجد میں ہم جمعہ قائم کرنے کافتوی لے رہے ہیں اس کے علاوہ اس محلے کے Sub محلوں سمیت پانچ مساجد موجود ہیں۔جن میں نماز پنجگانہ باجماعت ادا ہوتی ہے۔

 

محل وقوع :

محلہ شہوٹ کے سامنے اور آگے ایک آبادی ہے جو کہ سات بڑے محلوں پرمشتمل ہے۔ جن کے اور محلہ شہوٹ کے درمیان ایک نالہ حائل ہے ۔ بقیہ پانچ محلوں کو ملانے کیلئے ایک لکڑ کاپل(Suspension Bridge ) ہے اور ایک عددآرسی سی پل بھی موجود ہے۔

ڈموٹ سٹی کے تمام محلوں کی ایک مشترکہ کمیٹی (ڈموٹ جرگہ ) کے نام سے موسوم ہے جو ڈموٹ کے تمام محلوں کے مشترکہ معاملات کو دیکھتی ہے اور حل کرتی ہے ۔

محلہ شہوٹ کاSub محلہ بروکوئی اور شہوٹ کے درمیان ایک عدد آر سی سی پل موجود ہے ۔

محلہ شہوٹ کے سامنے ندی کی پرلی طرف ایک محلہ (کوٹ) ہے جس کی آبادی 1200 نفوس پرمشتمل ہے ۔ شہوٹ اور کوٹ کافاصلہ صرف ایک پل ہے ۔ دوسرا محلہ وزیری ہیٹ ہے جسکی آبادی 1200 ہے ۔ محلی شہوٹ سے وزیری ہیٹ کا فاصلہ 1 کلومیٹرہے۔اگلامحلہ پیدن داس ہے۔شہوٹ مسجد سے پیدن کا فاصلہ ۲ کلومیٹر ہے۔ اگلامحلہ منوٹ ہے۔ جس کی آبادی 1500 ہے،شہوٹ مسجد سے منوٹ کا فاصلہ 2 کلومیٹر ہے۔ اگلا محلہ فلکن ہے جسکی آبادی700 ہے،شوٹ مسجد سے فلکن کا فاصلہ ڈھائی کلومیٹر ہے۔ اگلا محلہ بر ماس ہے جس کی آبادی 3000ہے ۔ شہوٹ مسجد (عمر خطاب ) سے برماس کا فاصلہ ڈھائی کلومیٹر ہے۔اگلامحلہ بارگن ہے جس کی آبادی2000 ہے۔شہوٹ مسجد سے بارگن کا فاصلہ 3 کلومیٹر ہے۔شہوٹ کی جس مسجد میں جمعہ قائم کرنے کافتوی لے رہے ہیں اس سے مرکزی جامع مسجد ،جہاں پر اسوقت جمعہ پڑھی جاتی ہے، کا فاصلہ 3 کلومیٹر ہے۔

درجہ بالاشرائط اور تفصیل کو مدنظر رکھتے ہوۓ ادائیگی جمعہ کے قیام کے بارے میں فتوی جاری فرما کر رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جمعہ کے جواز کے لیے اصل تو یہ ہے کہ مصر یعنی شہر ہو،اس کے بعد قریہ کبیرہ یعنی بڑی بستی جس میں بازار ہو، میں جمعہ پڑھنے کی اجازت ہے،قریہ کبیرہ معلوم کرنے کے لیے مختلف حضرات نے ضروریات نیزگھروں اور لوگوں کے حوالے سے مختلف اندازے ذکر کیے ہیں،یہ اپنے اپنے دور میں قریہ کبیرہ کی تعیین کی صورتیں تھیں،چناچہ اس حوالے سے آجکل کے اعتبار سے قریہ کبیرہ میں بازار کے بارے میں یہ دوصورتیں ہیں:

1۔جہا ں متصل دورویہ دکانیں ہوں۔

2۔جہاں اتنی دکانیں ہوں( اگرچہ متفرق ہوں) جن سے مقامی افراد کی اکثر ضروریات زندگی سے متعلق اشیاء مل

جاتی ہوں۔

ضروریات زندگی میں تین چیزیں اہم ہیں:

1۔کھانے، پینے اور پہننے کی اشیاء موجود ہوں۔

2۔دینی وعصری تعلیم کے مراکزہوں۔کم از کم میٹرک تک تعلیم ہوتی ہو۔

3۔صحت کے مراکز۔جہاں بنیادی علاج معالجہ کی سہولت موجود ہو۔

یہ اس بناء پر کہ قریہ کبیرہ بہرحال اپنی ہیئت کے اعتبارسے مصر سے چھوٹا ہوتا ہے ،لہذا اس میں وہ تمام چیزیں بطور شرط ملحوظ رکھنا مشکل ہےجو مصر کی خاصیت یا اس کے لیے ضروری ہوا کرتی ہیں۔

حضرات اکابر رحمہم اللہ تعالی کے فتاوی میںقریہ کبیرہکے بارے میں پوچھےگئے سوالاتکے جوابات پرغور کرنے سے معلوم ہوا کہ ایسی جگہ جہاں معتددبہ آبادی اور دکانیں ہوں اور مقامی لوگوں کی اکثر اشیاء ضرورت پوری ہورہی ہوں وہ بھی قریہ کبیرہ ہے،اور وہاں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز ہے۔

سوال میں موجود جگہ سے متعلق تفصیلات کے پیش نظر  اس پر بڑے گاؤں کی تعریف صادق  آتی ہے،اس لیے  اس میں جمعہ اور عیدین کی نمازپڑھنا جائزہے۔

حوالہ جات
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2/ 136):
(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:
الأول: (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها )وعليه فتوى أكثر الفقهاء مجتبى لظهور التواني في الأحكام وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض يقدر على إقامة الحدود كما حررناه فيما علقناه على الملتقى.
عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح۔
وفی فیض الباری(2/329):
واعلم ان القریۃ والمصر من الأشیاء العرفیۃ التی لاتکاد تنضبط بحال وان نص،ولذا ترک الفقھاء المصر علی العرف۔
وفی الکوکب الدری(1/199):
ولیس ھذا کلہ تحدید ا لہ بل اشارۃ الی تعیینہ وتقریب لہ الی الأذھان ،وحاصلہ ادارۃ الأمر علی
رأی أھل کل زمان فی عدھم المعمورۃ مصرا،فما ھو مصر فی عرفھم جازت الجمعۃ فیہ،ومالیس بمصر لم یجز فیہ،الا أن یکون  فناء المصر

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

14/جمادی الاولی1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے