82438 | طلاق کے احکام | مدہوشی اور جبر کی حالت میں طلاق دینے کا حکم |
سوال
مفتی صاحب !ایک شخص کو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر ،بازو یا ٹانگ پر گولی مار کر معذور کر دینے کی دھمکی، اغوا کا جھوٹا مقدمہ کر کے جیل کی دھمکی، اینٹی کرپشن میں جعلی مقدمہ کر کے سرکاری نوکری ختم کر وانے کی دھمکی دے کر زبردستی تحریر ی طلاق پر بغیر نیت وارادے کے دستخط کر وانے سے کیا طلاق واقع ہو جاتی ہے یا نہیں ؟جبکہ وہ صرف زبانی دھمکیاں نہیں دے رہے تھے، بلکہ وہ نا صرف یہ سب کچھ کرنے پر قادر ہیں ،بلکہ وہ سچ میں ایسا کر گزرتے ۔جبکہ وہ شخص سرکاری نوکری کی وجہ سے نہ تو کہیں چھپ سکتا تھا اور نہ کہیں جا سکتا تھا اور اس کو مکمل یقین بھی تھا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں وہ ایسا ضرور کریں گے ۔اور اگر وہ کہیں چلا جاتا تو اس کی سرکاری نوکری ختم ہو جاتی، مطلب نوکری ختم ہونے کے ڈر سے وہ کہیں جا بھی نہیں سکتا تھا ۔اس نے صرف تحریر ی طلاق پر دستخط کیے ،جبکہ زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں بولے ۔مطلب زبانی طور پر طلاق نہیں دی اور نہ ہی طلاق کے کاغذ تیار کر وائے۔ طلاق کے کاغذ بھی لڑکی والوں نے خود لکھوائے اور بندہ نے صرف دستخط کیے اور کاغذ پر "طلاق طلاق طلاق (ثلاثہ)" لکھا تھا ۔مہربانی فرما کر جلد سے جلد شرعی حیثیت سے حکم سے آگاہ کیا جائے ۔قرآن و حدیث کے حوالہ جات کے ساتھ ۔جزاک اللہ خیرا ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کسی شخص کو طلاق دینے کے لیے اس طور پر مجبور کر دیا جائے کہ اگر وہ انکار کرے گا تو اس كو قتل كر دیا جائے گا یا اس کے کسی عضو کو کاٹ دیا جائے گا یا ناکارہ بنا دیا جائے گا اور صورتحال یہ ہو کہ مجبور کرنے والا یہ سب کر گزرنے پر قادر ہو تو ایسی صورت میں اگر یہ شخص تحریرشدہ طلاق پر بغیر الفاظ پڑھے یا بولے دستخط کرے تو اس کی یہ طلاق شرعا معتبر نہیں ہوتی۔لہذا صورت مسئولہ میں جان سے مار دینے کی دھمکی پر صرف طلاق کے کاغذات پر دستخط کر نے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ الله تعالى :وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته، فكتب لا تطلق ؛لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة، ولا حاجة هنا، كذا في الخانية، ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا، وقع قضاء لا ديانة.( رد المحتار:3/ 236)
قال جمع من العلماء رحمهم الله تعالى:(وأما أنواعه) فالإكراه في أصله على نوعين، إما إن كان ملجئا أو غير ملجئ ،فالإكراه الملجئ هو الإكراه بوعيد تلف النفس أو بوعيد تلف عضو من الأعضاء ،والإكراه الذي هو غير ملجئ، هو الإكراه بالحبس والتقييد. ( الفتاوى الهندية:5/ 35)
قال العلامة الحصكفي رحمه الله تعالى:(وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه.(و)الثاني :(خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ.(و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا عما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه، وهو يختلف باختلاف الأشخاص، فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح.ابن كمال.(و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آجر) كلاتلاف مال الغير (أو لحق الشرع) كشرب الخمر والزنا (فلو أكره بقتل أو ضرب شديد) متلف لا بسوط أو سوطين إلا على المذاكير والعين.(الدر المختار:601/1)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى:وأما ما في إكراه الخانية: لو أكره على أن يقر بالطلاق ،فأقر لا يقع، كما لو أقر بالطلاق هازلا أو كاذبا ،فقال في البحر، وإن مراده لعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانة، ثم نقل عن البزازية والقنية ،لو أراد به الخبر عن الماضي كذبا لا يقع ديانة، وإن أشهد قبل ذلك لا يقع قضاء أيضا. (رد المحتار :3/ 238)
ہارون عبداللہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
19 جمادی الاخری1445 ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ہارون عبداللہ بن عزیز الحق | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |