03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نمازِجنازہ کے بعد اجتماعی دعاء کاحکم
86446جنازے کےمسائلجنازے کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

نمازِ جنازہ کے بعد دعا کے بارے میں کیا حکم ہے؟"فتاویٰ فریدیہ" جلد 3 صفحہ 247-250 میں یہ فتویٰ لکھا ہے کہ اس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صراحتاً ثبوت منقول نہیں ہے، اور نہ کرنے کی بھی کوئی دلیل نہیں۔ اور دعا بذات خود عبادت ہے، لہٰذا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن "فتاویٰ دارالعلوم" جلد 1 صفحہ 128-129 میں نمازِ جنازہ کے بعد اجتماعی دعا کے التزام کو بدعت اور ناجائز قرار دیا گیا ہے۔حضرت شیخ سرفراز خان رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لکھا ہے کہ نمازِ جنازہ کے بعد اجتماعی طور پر دعا کرنا بدعت ہے ("رائے سنت" صفحہ 205-220)۔تواب سوال یہ ہےکہ

 جب یہ دعا ہمارے علماء کے نزدیک بدعت ہے تو پھر علامہ فرید حقانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے جائز کیوں قرار دیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شریعت میں عمومی دعا کی تاکید، تلقین، اور فضیلت وارد ہوئی ہے،اور"وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ" آیت میں بھی اسی عمومی دعا کا ذکر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص جنازے کے بعد انفرادی طور پر یا دل ہی دل میں میت کے لیے دعا مانگے تو یہ جائز ہے۔مگر اجتماعی طور پر مروجہ طریقے کے مطابق باقاعدہ ہاتھ اٹھانا، اس کا اہتمام و التزام کرنا، اور اس طرح نہ کرنے والوں پر نکیر کرنا، یہ سب امور دعا کو مؤقت اور مقید کرنے کے زمرے میں آتے ہیں، جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرز عمل سے ثابت نہیں ہیں۔ لہٰذا ان سب امور کا ترک کرنا ضروری ہے، اور مطلق دعا سے جنازے کے بعد کے مخصوص موقع پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ نماز جنازہ بذات خود دعا ہے۔ اس کے بعد دعا کا اہتمام اور التزام عہد رسالت، عہد صحابہ، اور عہد تابعین و تبع تابعین میں سے کسی دور میں بھی ثابت نہیں ہے، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں متعدد جنازے پڑھائے۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز جنازہ پڑھانے کا طریقہ کار، اس کی تکبیرات وغیرہ نقل فرمائیں، اس میں دعا بعد الجنازہ کو ذکر نہیں کیا۔اگر آپ علیہ الصلاۃ والسلام کسی ایک جنازے کے بعد بھی دعا مانگنے کا اہتمام فرماتے، تو اتنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کم از کم کوئی ایک صحابی ضرور اس کا ذکر کرتے۔ جبکہ اس بارے میں احادیث طیبہ اور آثار صحابہ میں کوئی ایک روایت بھی مذکور نہیں ہے۔ اسی لیے ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ:"جنازے کے بعد دعا کرنا نماز جنازہ میں اضافہ کرنے کے مشابہ ہے۔"لہٰذا یہ بدعت ہے، جس کا ترک کرنا واجب ہے۔اگر کسی عالم نے اسے جائز کہا ہو تو ممکن ہے کہ ان کی مراد انفرادی دعا ہو، یا یہ ان کی انفرادی رائے ہو۔

حوالہ جات

وفی مرقاة المفاتيح، كتاب الجنائز:

ولا يدعو للميت بعد صلاة الجنازة لأنه يشبه الزيادة في صلاة الجنازة۔( باب المشي بالجنازة والصلوة عليها، الفصل الثالث، ج:4، ص:170)

وفی البحر الرائق، كتاب الجنائز:

وهي أربع تكبيرات بثناء بعد الأولى وصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم بعد الثانية ودعاء بعد الثالثة وتسليمتين بعد الرابعة )۔۔۔۔ وقيد بقوله بعد الثالثة لأنه لا يدعو بعد التسليم كما في الخلاصة وعن الفضلي لا بأس به۔(فصل السلطان أحق بصلوته، ج:2، ص:  320۔321)

المحیط البرھانی: (205/2، ط: دار الکتب العلمیہ)

ولا يقوم الرجل بالدعاء بعد صلاة الجنازة؛ لأنه قد دعا مرة، لأن أكثر صلاة الجنازة الدعاء.

وفی رد المحتار على الدرالمختار

(البدعة )ما أحدث على خلاف الحق المتلقى عن رسول الله من علم أو عمل أو حال بنوع شبهة واستحسان وجعل دينا قويما وصراطا مستقيما۔(  كتاب الصلوة، باب اللإمامة، مطلب:البدعة خمسة اقسام، ج:2، ص:299)

رد المحتار: (باب الجنائز، 210/2، ط: دار الفکر)

فقد صرحوا عن آخرهم بأن صلاة الجنازة هي الدعاء للميت إذ هو المقصود منها.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

١۷/۷/١۴۴٦ھ
 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب