امام کا مسجد میں بنے حجرہ میں دوائیں بیچنے کا کیا حکم ہے؟جبکہ دوائی وغیرہ مسجد میں نہیں رکھتے بلکہ صرف خریدار وغیرہ سے ملاقات ہوتی ہو؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں امام صاحب کا اس طرح مسجد کے حجرہ میں دوایئوں کی خریدوفروخت کرنا ، مکروہ ہے اس وجہ سے کہ اگر چہ دوائیاں وغیرہ مسجد میں رکھ کر نہیں بیچتے،لیکن اس حجرہ کی طرف چونکہ علیحدہ سے کوئی راستہ نہیں ہے بلکہ خریدو فروخت کرنے والوں کو مسجد سے ہی گذر کر حجرہ کی طرف آنا جانا پڑتا ہے،تو اس صورت میں مسجد کو بلا عذر گذرگاہ بنانا لازم آئےگا،جو کہ مکروہ ہے،لہذا امام صاحب کو اس سے اجتناب کر نا لازم ہے۔(ماخذہ کفایت المفتی،ج ۳،ص:۱۸۷)
البتہ اگر یہ صورت اختیار کر لی جائے کہ حجرہ کی پچھلی طرف سے خارجِ مسجد میں کوئی دروازہ نکال لیا جائےجس کے ذریعے لوگ اندر داخل ہوں تو اس کی گنجائش ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (1 / 656)
(وَ) كُرِهَ تَحْرِيمًا (الْوَطْءُ فَوْقَهُ، وَالْبَوْلُ وَالتَّغَوُّطُ) لِأَنَّهُ مَسْجِدٌ إلَى عَنَانِ السَّمَاءِ (وَاِتِّخَاذُهُ طَرِيقًا بِغَيْرِ عُذْر)
سنن الترمذي - (3 / 610)
عن أبي هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال إذا رأيتم من يبيع أو يبتاع في المسجد فقولوا لا أربح الله تجارتك وإذا رأيتم من ينشد فيه ضالة لا رد الله عليك
البحر الرائق - (2 / 327)
وَأَطْلَقَ الْمُبَايَعَةَ فَشَمِلَتْ ما إذَا كانت لِلتِّجَارَةِ وَقَيَّدَهُ في الذَّخِيرَةِ بِمَا لَا بُدَّ له منه كَالطَّعَامِ أَمَّا إذَا أَرَادَ أَنْ يَتَّخِذَ ذلك مَتْجَرًا فإنه مَكْرُوهٌ وَإِنْ لم يُحْضِرْ السِّلْعَةَ وَاخْتَارَهُ قاضيخان في فتاواه وَرَجَّحَهُ الشَّارِحُ لِأَنَّهُ مُنْقَطِعٌ إلَى اللَّهِ تَعَالَى فَلَا يَنْبَغِي له أَنْ يَشْتَغِلَ بِأُمُورِ الدُّنْيَا
وَقَيَّدَ بِالْمُعْتَكِفِ لِأَنَّ غَيْرَهُ يُكْرَهُ له الْبَيْعُ مُطْلَقًا لِنَهْيِهِ عليه السَّلَامُ عن الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ في الْمَسْجِدِ