85186 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ 2003میں والد صاحب نے 9لاکھ مالیت کا گھر فروخت کر کے 11 لاکھ مالیت کاگھر والدہ صاحبہ کو ہدیہ کر کے انکے نام ٹرانسفر کردیا تھا۔ ہم کل 6 بہن بھائی تھے ۔ چار بہنیں ، دو بھائی - 2007 میں والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ گھر میں تعمیرات کے کام کے لیے پیسے درکار تھے۔ اسی سے امی نے گھربھائی کے نام کردیا تاکہ اسے لون مل سکے لیکن تعمیرات کا کام شروع نہ ہو سکا۔ تمام بہن بھائی شادی شدہ ہیں۔ ابو کے انتقال کے چند سال بعد دوسرے نمبر کی بہن(شاہین جنید متوفی2012)کا انتقال ہو گیا جن کے تین بچے ہیں ،ایک بیٹااور دو بیٹیاں ۔ اُن کے شوہر نے دوسری شادی کرلی ہے۔
چند سال بعد تیسرے نمبر کی بہن(ہما جاوید متوفی 2020) کا بھی انتقال ہو گیا انکے دو سو تیلی بیٹیاں اور دوبیٹے ہیں(ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی )اس کے انتقال کے بعد سسرال والوں سے جہیزاور اس کا زیور جو ہم لوگوں نے دیا تھا ،وہ نہیں لیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں سسرال والوں نے نہیں دیا۔اب میری والدہ( متوفی2021 )کے وارثین میں میں ، میرا چھوٹا بھائی، میری بڑی بہن جو بیوہ ہیں اور ان کی بھی کوئی اولاد نہیں ہے اور سب سے چھوٹی بہن حیات ہیں۔ اب ہم اپنا گھر فروخت کر کے سب کو شریعت کے مطابق حصہ دینا چاہتے ہیں۔ گھر کی کل مالیت ایک کروڑ ساٹھ لاکھ مل رہے ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ شریعت کے حساب سے جس کا جو حصہ بنتا ہے ،وہ بتادیں تا کہ ہم بھائی اپنی اس شرعی ذمہ داری کو احسن طریقے سے پورا کر سکیں۔
بہن بھائیوں کے نام:
1:راحیل سلمان (بیوہ کوئی اولاد نہیں)
2:شاہین جنید متوفی2012 (مرحومہ تین بچے ایک بیٹا دو بیٹیاں)
3:عمران احمد ( دو بیٹے اور بیوی موجود ہے )
4:ہما جاوید متوفی 2020 ( مرحومہ کوئی اولاد نہیں ہے ہو۔سوتیلے چار بیٹے ہیں )
:5ریحان احمد (ایک بیٹا 2بیٹیاں اور بیوی موجود ہے)
:6عامرہ ناصر (شادی شدہ)
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مرحومہ کےترکہ میں سے پہلےتجہیز وتکفین کے اخراجات نکالے جائیں گے، بشرطیکہ یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان نہ اٹھائے ہوں، دوسرے نمبر پر قرضوں کی ادائیگی کی جائے گی ،پھراگر کوئی جائزوصیت کی ہوتوان کے کل ترکہ کے ایک تہائی (3/1)حصے میں نافذ ہوگی۔اس کے بعد جو مال بچ جائے گا اس کےچھ حصے کیے جائیں گے، چار حصے دو بیٹوں کے ہوں گے اور دو حصے دونوں بیٹیوں کے ہوگے ،یعنی عمران احمد اور ریحان احمد میں سے ہر ایک کو 5,333,333.33(ترپن لاکھ تینتیس ہزار تین سو تینتیس روپے) ملیں گے اور راحیل سلمان اور ناصرہ سلمان میں سے ہر ایک کو2,666,666.66(چھبیس لاکھ چھیاسٹھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ روپے ) ملیں گے۔ باقی جن بیٹیوں کا انتقال والدہ کی حیات میں ہو چکا ہے ان کو میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا۔ تقسیم ِ میراث کا نقشہ ملاحظہ فرمائیں:
نمبر شمار |
نام |
عددی حصہ |
فیصدی حصہ |
ترکہ میں سے حصہ |
1 |
عمران احمد |
2 |
33.3333% |
5,333,333.33 |
2 |
ریحان احمد |
2 |
33.3333% |
5,333,333.33 |
3 |
راحیل سلمان |
1 |
16.6666% |
2,666,666.66 |
4 |
عامرہ ناصر |
1 |
16.6666% |
2,666,666.66 |
حوالہ جات
القرآن الکریم (سورۃ النساء ، رقم الآیۃ ۱۱):
﴿يُوْصِيْكُمُ اللّـٰهُ فِىٓ اَوْلَادِكُمْ ۖ لِلـذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ،فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ﴾
السراجی فی المیراث:(ص:19)، مکتبۃ البشری:
وأما لبنات الصلب فأحوال ثلاث: النصف للواحدۃ، والثلثان للإثنین فصاعدا، ومع الابن للذکر مثل حظ الأنثیین وھو یعصبھن۔
عطاء الر حمٰن
دارالافتاءجامعۃالرشید ،کراچی
24/ربیع الثانی /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عطاء الرحمن بن یوسف خان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |