83633 | طلاق کے احکام | تین طلاق اور اس کے احکام |
سوال
سوال:السلام علیکم !مجھے حیدرآباد سےآئےہوئےسات سال ہوگئےہیں،میرےشوہرنےمجھے کئی مرتبہ طلاق کےالفاظ کہےہیں،کئی بارطلاق دینےکاکہاہے،میری ساس اورچھٹانی نےبھی مارپیٹ کرکےمیرےشوہرسےطلاق دلوائی ،میرےشوہرمارتےبھی تھےاور صبح شام طلاق دینےبعد مکرجاتےتھے،میرےسسرال والےبھی طلاق کو نہیں مانتےتھے،میرےشوہرنشہ میں مجھےطلاق دیتےتھے،ہوش میں آنےکےبعدمکرجاتےتھے،میرےچھ بچےہیں،دوبیٹی اورایک بیٹامیرےپاس رہتاہے،ایک بیٹی شادی شدہ ہے،دوبیٹےاپنےباپ کےساتھ رہتےہیں،شوہرکوئی خرچہ بھی نہیں دیتا،آپ مجھے اس کافتوی دیں ،میراشوہرلکھ کربھی طلاق نہیں دےرہاہے۔
تنقیح:سائلہ نےوضاحت کی ہےکہ اس کےشوہرنےیہ الفاظ کئی مرتبہ کہےہیں،میں نےتمہیں طلاق دی،طلاق دی طلاق دی ،سائلہ کےبقول یہ الفاظ تین دفعہ سےزائد کہےگئےہیں۔شوہرکوکئی مرتبہ بتایاہےکہ طلاق ہوچکی ہے،لیکن وہ کہتاہےاس سےکچھ نہیں ہوتا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں اگرشوہرواقعتا طلاق دیتارہااورآپ نےواقعتاطلاق کےالفاظ خود سنےہیں اورآپ کواس بات کایقین ہےکہ طلاقیں تین مرتبہ سےزائدہوچکی ہیں ،توآپ پرطلاق مغلظہ واقع ہوچکی ہے، ایسی صورت میں آپ کا شوہرکےساتھ رہناشرعاجائزنہیں ہوگا، طلاق مغلظہ کےبعدعدت گزارکردوسری جگہ نکاح کیاجاسکتاہے۔
شوہراوراس کےگھروالےاگرانکارکرتےہیں تووہ جھوٹ،غلط بیانی کی وجہ سےگناہگارہونگے،خاندان کےدیگرسمجھداراوردینی ذہن رکھنےوالوں کودرمیان میں ڈال کر مسئلہ اچھی طرح سمجھانا چاہیےکہ طلاق صرف لکھ کردینےسےنہیں ،زبان سےطلاق کےالفاظ کہےجائیں تو بھی طلاق ہوجاتی ہے۔
اسی طرح طلاق مغلظہ کےبعدنکاح مکمل طورپرختم ہوجاتاہے،میاں بیوی کاساتھ رہنا شرعاجائزنہیں ہوتا،جتناعرصہ ساتھ رہیں،زناء شمار ہوتاہے ،غلط بیانی کرکےحرام کاری میں مبتلاء ہوکراپنی آخرت کیوں برباد کر رہےہیں۔
میاں بیوی میں علیحدگی کےبعد بچوں کےنفقہ واخراجات میں تفصیل یہ ہےکہ اولاد جب تک نابالغ ہو یا بالغ ہو، لیکن کسی عذر شرعی کی وجہ سے کمانے کے قابل نہ ہو، اسی طرح غیرشادی شدہ لڑکیاں چاہے بالغہ ہوں یا نابالغہ، جب تک شادی نہ ہو، اس وقت تک ان کا نفقہ(خرچہ) والد پروالدکی استطاعت کےمطابق لازم ہوتا ہے۔
حوالہ جات
قال اللہ تعالی فی سورۃ البقرۃ 229،223:
الطلاق مرتان فامساک بمعروف اوتسریح باحسان۔۔۔فان طلقہافلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاغیرہ۔
ھدایۃ " 2 /378:
وان کان الطلاق ثلاثافی الحرۃ الخ لاتحل لہ حتی تنکح زوجاغیرہ نکاحاصحیحاویدخل بہاثم یطلقہاأویموت عنہا۔
"الدر المختار للحصفكي" 3 / 672:
(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الانثى والجمع (الفقير) الحر، فإن نفقة المملوك على مالكه والغني في ماله الحاضر۔۔۔
"الهداية "1 / 291:
فصل : ونفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد ۔
ونفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كما لا يشاركه في نفقة الزوجة لقوله تعالى : { وعلى المولود له رزقهن } [ البقرة : 233 ] والمولود هو الأب۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی
13/شوال 1445ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |