021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جماعتِ ثانیہ کے لئےاقامت کا حکم
83710نماز کا بیانامامت اور جماعت کے احکام

سوال

کسی مسجد میں جماعت ہونے کے بعد دوسری جماعت کروانے کے لئے تکبیر (اقامت)کہیں گے یا نہیں؟ مسافر اور مقیم دونوں کا حکم بیان فرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جس مسجد میں دوسری جماعت کرانا جائز ہو وہاں دوسری جماعت میں صرف اقامت پر اکتفاء بھی جائز ہے،مگردوسری جماعت علیحدہ اذان و اقامت کے ساتھ کرانا افضل ہے،مسجد میں دوسری جماعت کے جواز اور عدم جواز کے حوالے سے تفصیل درج ذیل ہے:

 محلے کی مسجد  (جس کے امام اور نمازی متعین ہوں)میں ایک دفعہ جماعت ہوجانے کے بعد مسجد کی حدود کے اندر دوبارہ جماعت کرانا مکروہ تحریمی ہے،البتہ اگر محلے کی مسجد میں اہل محلہ کے علاوہ کسی اور جماعت کروائی ہو،یا اہل محلہ نے کروائی ہو،لیکن اذان دیئے بغیر پہلی جماعت قائم کی گئی تو پھر اذان و اقامت کے ساتھ دوسری جماعت جائز ہے۔

 اسی طرح ایسی جگہ پر جو مسجد کی حدود سے باہر ہویامسجدِ شرعی نہ ہو،بلکہ صرف مصلی ہو تو وہاں دوسری جماعت کرانے میں کوئی حرج نہیں۔

جبکہ راستے کی ایسی مسجد جس کے نمازی معلوم اور متعین نہ ہوں،جیسا کہ ہائی وے اور موٹر وے وغیرہ پر موجود  پٹرول پمپ یا ہوٹل وغیرہ سے منسلکہ ایسی مساجد جو شہر کی حدود سے باہر ہوتی ہیں یا ایسی جگہ پر واقع ہوتی ہیں جہاں آس پاس آبادی نہیں ہوتی، محض پٹرول پمپ اور ہوٹل وغیرہ میں کام کرنے والے ملازمین ہی اس کے مقامی نمازی ہوتے ہیں۔

 ایسی مساجد میں  باوجود یہ کہ  ان  میں امام و مؤذن  مقرر ہوں اور آس پاس کے چند نمازی بھی مستقل نماز پڑھنے والے ہوں مسافروں کیلئے دوسری جماعت کرنا مکروہ نہیں ہے، کیونکہ عموماً ان مساجد میں ہر نماز کے وقت جو جماعتیں ہوتی ہیں ان میں اتنی کثرت کے ساتھ مقتدیوں میں تبدیلی واقع ہوتی ہے کہ ان کو جماعت معلومہ نہیں کہا جاسکتا کہ جس کی بناء پر ایسی مساجد کو مسجد محلہ کہا جا سکے۔

نیز ایسی مساجد میں جماعت ثانیہ کے مکروہ ہونے کی وجوہات(مثلا تقلیل جماعت اور جماعت اولیٰ میں  سستی  وغیرہ) بھی نہیں پائی جاتیں، لہذا ایسی مساجد میں مسافروں کیلئے اہل محلہ سے پہلے اپنی  جماعت کرنا اور اسی طرح   اہل محلہ کے بعد جماعت ثانیہ کرنا، نہ صرف جائز بلکہ افضل ہے، تا کہ سب کو لوگوں کو جماعت کی فضیلت حاصل ہو جائے،   البتہ ایسی مساجد میں جماعت ثانیہ جماعت اولی کی ہئیت سے ہٹ کر ادا کرنا بہتر ہے جس کی صورت یہ ہے کہ مسجد میں جس جگہ جماعت اولی ہو چکی ہو اس جگہ سے کچھ ہٹ کر دوسری جگہ جماعت ثانیہ ادا کی جائے اور اگر مسجد سے باہر نماز کی مناسب جگہ موجود ہو تو احتیاطا اسی جگہ نماز ادا کی جائے۔

حوالہ جات
"الدر المختار" (1/ 552):
"ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ:" (قوله ويكره) أي تحريما لقول الكافي لا يجوز والمجمع لا يباح وشرح الجامع الصغير إنه بدعة كما في رسالة السندي (قوله بأذان وإقامة إلخ) عبارته في الخزائن: أجمع مما هنا ونصها: يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة بأذان وإقامة، إلا إذا صلى بهما فيه أولا غير أهله، لو أهله لكن بمخافتة الأذان، ولو كرر أهله بدونهما أو كان مسجد طريق جاز إجماعا؛ كما في مسجد ليس له إمام ولا مؤذن ويصلي الناس فيه فوجا فوجا، فإن الأفضل أن يصلي كل فريق بأذان وإقامة على حدة كما في أمالي قاضي خان اهـ ونحوه في الدرر، والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احترازا عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعا. اهـ.
"المبسوط للسرخسي" (1/ 135):
قال (وإذا دخل القوم مسجدا قد صلى فيه أهله كرهت لهم أن يصلوا جماعة بأذان وإقامة ولكنهم يصلون وحدانا بغير أذان ولا إقامة)لحديث الحسن قال كانت الصحابة إذا فاتتهم الجماعة فمنهم من اتبع الجماعات ومنهم من صلى في مسجده بغير أذان ولا إقامة وفي الحديث «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - خرج ليصلح بين الأنصار فاستخلف عبد الرحمن بن عوف فرجع بعد ما صلى فدخل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بيته وجمع أهله فصلى بهم بأذان وإقامة» فلو كان يجوز إعادة الجماعة في المسجد لما ترك الصلاة في المسجد والصلاة فيه أفضل، وهذا عندنا.
 وقال الشافعي - رضي الله تعالى عنه - لا بأس بتكرار الجماعة في مسجد واحد لأن جميع الناس في المسجد سواء وإنما لإقامة الصلاة بالجماعة وهو قياس المساجد على قوارع الطرق فإنه لا بأس بتكرار الجماعة فيها
(ولنا) أنا أمرنا بتكثير الجماعة وفي ‌تكرار ‌الجماعة في مسجد واحد تقليلها لأن الناس إذا عرفوا أنهم تفوتهم الجماعة يعجلون للحضور فتكثر الجماعة وإذا علموا أنه لا تفوتهم يؤخرون فيؤدي إلى تقليل الجماعات وبهذا فارق المسجد الذي على قارعةالطريق لأنه ليس له قوم معلومون فكل من حضر يصلي فيه فإعادة الجماعة فيه مرة بعد مرة لا تؤدي إلى تقليل الجماعات ثم في مسجد المحال إن صلى غير أهلها بالجماعة فلأهلها حق الإعادة لأن الحق في مسجد المحلة لأهلها ألا ترى أن التدبير في نصب الإمام والمؤذن إليهم فليس لغيرهم أن يفوت عليهم حقهم، فأما إذا صلى فيه أهلها أو أكثر أهلها فليس لغيرهم حق الإعادة.

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

28/شوال 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے