83707 | تاریخ،جہاد اور مناقب کا بیان | متفرّق مسائل |
سوال
بندہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل کتب پڑھنےکاشوق رکھتاہے،انہیں سمجھنے،ان پر عمل کرنےکی کوشش کرتا ہے،ان دنوں میرےزیرمطالعہ کتاب کا نام سیرت حلبیہ ہےجو کہ علامہ علی بن برہان الدین حلبی رحمہ اللہ تعالی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ علامہ مولانا محمد اسلم قاسمی مدظلہ نے لکھاہے،کتاب کےصفحہ نمبر ۳۸۳ پرموجودتحریر پڑھ کرمیں ششدرہوں اورمیرے ذہن میں چندایک سؤالات ہیں جن پر علماء حق سےرہنمائی کا طلبگار ہوں۔
۱۔کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسا ہونا کتب احادیث اور سنت مبارکہ سے ثابت ہے؟
۲۔کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے بارے میں ایسے الفاظ لکھنا ، چھاپنا گستاخانہ مواد کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اس عبارت میں مذکورخصوصیات میں سے کسی عورت کا بلا مہر اپنے کو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کردینے کا جواز توخودقرآن مجید کی آیت وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَنْ يَسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ [الأحزاب/50] سےاگرچہ صراحت کےساتھ ثابت ہے،البتہ اس بارے میں علماء میں اختلاف ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش بھی آیا ہے یا نہیں ؟بعض علماء نے تو فرمایا کہ کسی ایسی عورت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح کرنا ثابت نہیں اوربعض کےنزدیک ایسی عورتوں سے نکاح ہونا بھی ثابت ہے۔(معارف القرآن: ج۷،ص۱۸۹)
اسی طرح اس عبارت میں یہ بات کہ کسی غیر شادی شدہ عورت سےعام روایتی طریقےکےمطابق لفظ ہبہ یانکاح اور مہر کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح کا درست ہوجانا جیساکہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا کے بارے میں لکھا ہے تویہ بات انسانوں کے سامنے ظاہری صورت حال کے مطابق لکھی گئی ہے، ورنہ قرآن مجید کی رو سے اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ نکاح اللہ تعالی نے آسمانوں پرخودفرماکر حضرت جبریل علیہ السلام کےذریعہ اس کی اطلاع دی اور جب اللہ تعالی نے نکاح منعقد فرمایا تو انسانوں کے معاشرے کے لیے تشکیل کردہ ضابطوں (گواہ ،مہر،ولی کی اجازت وغیرہ ) کی ضرورت نہ رہی۔
لہذااس مقام پرجو یہ بات لکھی ہے کہ آپ کو پہلےسےحضرت زینب رضی اللہ عنہا سے محبت اورنکاح کی رغبت تھی تویہ بات کمزورروایات پرمبنی ہے،جیساکہ تفسیرابن کثیروغیرہ میں لکھاہے،نیزاس ظاہری نکاح کے لیےجوتعبیرات استعمال کی گئی ہیں وہ بھی درست نہیں۔
اسی طرح یہ خصوصیت کہ کسی شادی شدہ عورت کی طرف میلان ہونےکی صورت میں اس کےشوہرپراسےطلاق دےکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کےحق میں اس سےدستبردارہوناضروری ہےاوریہی حکم مملوکہ باندھی کا ہےتویہ اصول سورہ احزاب کی آیتالنبی اولی بالمؤمنین من انفسھم سے اخذ کیا گیا ہے، لیکن اس آیت میں یہ اصول شامل ہونا کوئی قطعی امر نہیں، اس سے اختلاف کی گنجائش ہے، جیساکہ بطور مشورہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننا لازم نہیں، وہ اس اصول سے مستثنی ہے۔
۲۔جب اس قسم کی باتوں کے لکھنےاوربیان کرنے اور شائع کرنےسے مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات بیان کرنا ہو تو یہ بے ادبی یا گستاخی نہیں،بلکہ عین محبت وادب ہے،البتہ تعبیروتشریح مناسب ہوناضروری ہے۔
حوالہ جات
السيرة الحلبية ـ علي بن برهان الدين الحلبي - (ج 6 / ص 253)
ومن القسم الثالث القبلة في الصوم مع وجود الشهوة. فقد كان يقبل عائشة رضي الله تعالى عنها وهو صائم ويمص لسانها، ولعله لم يكن يبلع ريقه المختلط بريقها. والخلوة بالأجنبية، وأنه إذا رغب في امرأة خلية كان له أن يدخل بها من غير لفظ نكاح أو هبة ومن غير ولي ولا شهود، كما وقع له في زينب بنت جحش رضي الله تعالى عنها كما تقدم، ومن غير رضاها، وأنه إذا رغب في امرأة متزوجة يجب على زوجها أن يطلقها له ، وأنه إذا رغب في أمة وجب على سيدها أن يهبها له. وله أن يتزوج المرأة لمن يشاء بغير رضاها، وله أن يتزوج في حال إحرامه، ومن ذلك نكاح ميمونة على ما تقدم. وأن يصطفي من الغنيمة ما شاء قبل القسمة من جارية أو غيرها.
ومن صفاياه صفية وذو الفقار كما تقدم، وأن يتزوج من غير مهر كما وقع لصفية رضي الله تعالى عنها. وقد قال المحققون: معنى ما في البخاري وغيره أنه جعل عتقها صداقها أنه أعتقها بلا عوض وتزوّجها بلا مهر، فقول أنس رضي الله تعالى عنه أمهرها نفسها معناه أنه لما لم يصدقها شيئاً كان العتق كأنه المهر وإن لم يكن في الحقيقة كذلك، وأن يدخل مكة بغير إحرام اتفاقاً، وأن يقضي بعلمه ولو في حدود الله تعالى.( وکذا فی الخصائص الكبرى ـ لجلال الدين عبدالحمن السيوطي )
نواب الدین
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
۲۸شوال۱۴۴۵ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | نواب الدین | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |