021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین طلاق پر مشتمل طلاق نامہ پر دستخط کا حکم
83721طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

ایک شخص نے اپنے بیوی کو منسلکہ طلاق نامہ کے ذریعے طلاق دی، پھر مندرجہ ذیل خط لکھا۔ سوال یہ ہے کہ طلاق نامے اور اس تحریر کی رو سے اس کی بیوی پر کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟

"السلام علیکم ! امید ہے کہ تمام دوست احباب اوررشتہ دار خیر و عافیت سے ہوں گے۔ میں آپ تمام لوگوں کی توجہ ایک اہم معاملےکی طرف دلوانا چاہ رہا ہوں،  جس کا تعلق مجھ سے اور میری پرانی بیوی سے ہے ۔ آج سے دو سال پہلے ..... پر ان کوتمام شرعی تقاضے پورے کرتے ہوئے طلاق دےچکا ہوں۔میرا ان سے کسی قسم کا کوئی شرعی تعلق نہیں رہا اور یہ بات ان کی والدہ اور ان کےبھائی لیق کے علم میں پہلے دن سے ہی موجودہے۔ شرعی طور پر طلاق کے تمام تقاضے پورے ہوچکے ہیں، لیکن اس کے باوجود لڑکی کے گھروالوں نے لڑکی کو میرے گھر میں بھیج دیا ہےاور مجھ سے مسلسل تقاضا کیا جا رہا ہے کہ حلالہ جیسا مکروہ عمل کے بعد ان کو دوبارہ میں اپنا لوں۔ میں اللہ پاک کو حاضر ناظر جان کر آپ لوگوں کو گواہ بنا رہا ہوں کہ میں ان کو طلاق دے چکاہوں اور میرا آج کے بعد سے ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر اس خط کے پانچ دن کے اندر ان لوگوں نے اپنی بیٹی کو میرے گھر سے واپس اپنے گھر نہ بلایا تو مجھے اپنا اگلا لائحہ عمل سوچنا ہوگا۔ آپ تمام لوگوں کے قیمتی وقت کا شکریہ"۔

وضاحت از مجیب: منسلکہ طلاق نامہ میں محمد اویس احمد ولد احمد جان کی ثوبیہ دختر دولت خان کے ساتھ شادی اور گھریلو ناچاقی کی تفصیل کے بعد لکھا گیا ہے:

"حالاتِ بالا کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے من مقر نے مسماہ مذکورہ کو اپنی زوجیت سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لہٰذا من مقر اپنے مکمل ہوش و حواس میں مسماۃ مذکورہ کو آج مؤرخہ 10.04.2024 کو طلاقِ ثلاثہ یعنی طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، دے کر اپنی زوجیت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے علیحدہ کرتا ہوں۔ مسماۃ مذکورہ اپنی عدت پوری کرنے کے بعد جہاں چاہے عقدِ ثانی کر لیوے، جس پر من مقر کو کوئی عذر و اعتراض نہ ہوگا۔ لہٰذا من مقر نے طلاقِ ثلاثہ کو پڑھ کر سمجھ درست تسلیم کرتے ہوئے اپنے دستخط و نشان انگوٹھا جات ثبت کردیے ہیں، تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔"

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ تین طلاق ایک ساتھ دینا گناہِ کبیرہ ہے جس سے اجتناب لازم اور ضروری ہے، لیکن اگر کوئی ایک ساتھ تین طلاق دیدے تو تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں محمد اویس احمد کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور ان دونوں کے درمیان حرمتِ مغلظہ ثابت ہوچکی ہے، اب نہ رجوع ہوسکتا ہے، نہ ہی ان دونوں کے درمیان دوبارہ نکاح۔ ثوبیہ دختر دولت خان عدت گزارنے کے بعد جہاں چاہے، شادی کرسکتی ہے۔

واضح رہے کہ تین طلاق کے بعد حلالہ کی شرط پر خاتون کا کسی سے نکاح کرانا جائز نہیں، اس پر حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔ لیکن اگر نکاح میں طلاق دینے کی بات طے شدہ نہ ہو، یعنی دوسرا نکاح بغیر کسی شرط کے ہو تو وہ جائز ہوگا، اگرچہ نکاح کرنے والے کی نیت بعد میں طلاق دینے کی ہو۔ ایسی صورت میں اگر دوسرا شوہر ہمبستری کے بعد اپنی مرضی سے طلاق دیدے یا اس کا انتقال ہوجائے اور عدت گزرجائے تو خاتون کے لیے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔

حوالہ جات
القرآن الکریم:
  {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ } الآیة [البقرة: 230]
صحيح البخاري (7/ 42):
حدثنا سعيد بن عفير قال حدثني الليث قال حدثني عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني عروة بن الزبير أن عائشة أخبرته أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله! إن رفاعة طلقني فبت طلاقي وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير  القرظي،  وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لعلك تريدين أن ترجعي إلی رفاعة، لا، حتی یذوق عسیلتك وتذوقي عسیلته.  
المبسوط للسرخسي (6/ 16-14):
ولا خلاف بين العلماء أن النكاح الصحيح شرط الحل للزوج الأول بعد وقوع الثلاث عليها والمذهب عند جمهور العلماء أن الدخول بها شرط أيضا وقال سعيد بن المسيب رضي الله تعالى عنه ليس بشرط لأن في القرآن شرط العقد فقط ولا زيادة بالرأي ولكن هذا قول غير معتبر ولو قضى به قاض لا ينفذ قضاؤه فإن شرط الدخول ثابت بالآثار المشهورة…..… الخ
قال: فإن تزوج بها الثاني على قصد أن يحللها للزوج الأول من غير أن يشترط ذلك في العقد  صح النكاح ويثبت الحل للأول إذا دخل بها الثاني وفارقها. فإن شرط أن يحللها للأول فعند أبي حنيفة رحمه الله تعالى الجواب كذلك ويكره هذا الشرط، وعند أبي يوسف رحمه الله تعالى النكاح جائز ولكن لا تحل به للأول، وعند محمد رحمه الله تعالى النكاح فاسد؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: "لعن الله المحلل والمحلل له"، وعقد النكاح سنة ونعمة، فما يستحق به المرء اللعن لا يكون نكاحا صحيحا، ولأن هذا في معنى شرط التوقيت، وشرط التوقيت مبطل للنكاح. ولكن أبو يوسف رحمه الله تعالى يقول: هذا ليس بتوقيت في النكاح، ولكنه استعجال لما هو مؤخر شرعا، فيعاقب بالحرمان، كمن قتل مورثه يحرم من الميراث. وأبو حنيفة رحمه الله تعالى يقول: هذا الشرط وراء ما يتم به العقد، فأكثر ما فيه أنه شرط فاسد، والنكاح لا يبطل بالشروط الفاسدة، ثم النهي عن هذا الشرط لمعنى في غير النكاح، فإن هذا النكاح شرعا موجب حلها للأول، فعرفنا أن النهي لمعنى في غير المنهي عنه، وذلك لا يؤثر في النكاح، فلهذا ثبت الحل للأول إذا دخل بها الثاني بحكم هذا النكاح الصحيح.
الدر المختار (3/ 232):
( والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين ) في طهر واحد ( لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه ، أو ) واحدة في ( حيض موطوءة ).. الخ
رد المحتار (3/ 232,233):
( قوله والبدعي ) منسوب إلى البدعة والمراد بها هنا المحرمة لتصريحهم بعصيانه بحر. ( قوله ثلاثة متفرقة ) وكذا بكلمة واحدة بالأولى ، وعن الإمامية : لا يقع بلفظ الثلاث ولا في حالة الحيض لأنه بدعة محرمة ….وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث…….( قوله في طهر واحد ) قيد للثلاث والثنتين ….الخ

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

       02/ذو القعدۃ/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے