021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹے کاوالد سے نفرت کرنا
83720جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

میرابیٹا ہم دونوں سے نفرت کرتاہے،کیااس طرح نفرت کرنے سے ہمارااس سے رشتہ ختم ہوگیاہے؟اورکیامیں جمال سے اپنابیٹاواپس لے سکتاہوں؟کیابیٹاکااس طرح کرناجائزہے؟

قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مطلوب ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والدین سے نفرت کرنا بہت برا ہے، ماں باپ کا درجہ بہت بلند ہے، قرآن  کریم میں ہے: ”تم والدین کو اُف بھی نہ کہو اور ان کو نہ جھڑکو“ اور حدیث میں فرمایا گیا : باپ کی خوشی میں اللہ کی خوشی ہے اور باپ کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ: ”باپ جنت کے دروازوں میں سے بیچ کا دروازہ ہے تم چاہے اس کی حفاظت کرلو یا اس کو ضائع کردو“ ماں باپ کو محبت ا ور عظمت کی نظر سے دیکھنا بھی کار ثواب ہے، اس لیے بیٹے  پرضروری ہے اپنے دل میں جو نفرت بٹھائی ہے اس کو نکال دے،والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرے،ان کی خدمت کرے، بیٹا اگروالدین سےبراسلوک کرے تواس سے رشتہ ختم نہیں ہوتا،آپ کے لئے جمال سے بیٹے کوواپس لینابھی جائزہے،باقی اگرجمال نے اس کے اخراجات برداشت کئے ہیں ،اس کوپالاہے اوردیکھ بھال کی ہے توبیٹے کےدل میں اس کی محبت کاپیداہونافطری امرہے،اگروہ جمال کی خدمت کرتاہے تواس سے آپ منع نہ کریں۔

حوالہ جات
فی القرآن الكريم ،سورۃ الاسراء:
     وقضى ربك ألا تعبدوا إلا إياه وبالوالدين إحسانا إما يبلغن عندك الكبر أحدهما أو كلاهما فلا تقل لهمآ أف ولا تنهرهما وقل لهما قولا كريما (23) واخفض لهما جناح الذل من الرحمة وقل رب ارحمهما كما ربياني صغيرا۔
وفی سنن الترمذي (ج 3 / ص 207):
 عن عبدالله بن عمرو عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (رضا الرب في رضاالوالد وسخط الرب في سخط الوالد) .
وفی سنن الترمذي لمحمد الترمذي (ج 4 / ص 311):
عن ابي الدرداء أن رجلا أتاه فقال :إن لي امراة وإن أمي تأمرني بطلاقها قال أبو الدرداء:سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول: الوالد أوسط أبواب الجنة ،فإن شئت فأضع ذلك الباب أو احفظه۔

محمد اویس

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی

  ۲/ذی قعدہ ۱۴۴۵ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے