83850 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
مفتی صاحب ہماراتعلق بلوچستان کے ایک علاقہ قلعہ عبداللہ سے ہے ،ہمارے علاقہ میں افیون کی کاشتکاری خوب ہورہی ہے، پھر ہمارے ہاں ایف سی کے قلعوں کے سامنے چرس ہیروئین، آئس وغیرہ بنانے کی مشینیں لگی ہوئی ہیں، جس سے روزانہ ٹنوں کے حساب سے نشہ آورمواد تیارہورہاہے، پھر ان مواد کا استعمال مقامی طورپر بھی ہورہاہے اورباہر پورے ملک، بلکہ پوری دنیا میں سپلائی ہوتی ہے، المیہ یہ ہےکہ علاقہ کے بعض نام نہاد علماء اور مفتی حضرات اس دھندے میں خود بھی ملوث ہیں اور جواز کا فتوی بھی سرعام سوشل میڈیا پر چلارہے ہیں دلیل یہ ہے کہ کیا کریں لوگ؟ بیروزگار ہیں، یا یہ دلیل کہ اسے دوائی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ،جبکہ دوائی کے لیے حکومت خود کاشتکاری کرتی ہے، کاشت کرنے والوں کو لائسنس دیا جاتا ،جبکہ یہاں سو فیصد یہی احتمال ہے کہ اس سے خطرناک نشے والی چیزیں تیار ہوتی ہیں۔
حالانکہ ہماری زمینوں میں حلال چیزیں جیسے ،سیب ،انگور ،انار،خوبانی، گندم وغیرہ کی بہترین کاشت ہو بھی سکتی ہے اور ہو بھی رہی ہے،، مہربانی فرماکر اس مسئلہ کا شرعی حل تجویز فرمائیں اور اس سے حاصل شدہ منافع حلال ہے یا حرام ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
افیون ان اشیاء میں سے ہے جن کااستعمال فی نفسہ جائزاورناجائزدونوں طرح ممکن ہے،اس کاجائزاستعمال دوائیوں اوردیگرمصنوعات میں ہوتاہے،جبکہ ناجائز استعمال نشہ کے لئےہوتاہے،لیکن اس کاناجائزاستعمال زیادہ اورغالب ہے،اس وجہ سے اس کی کاشت پرقانوناپابندی ہے،اس لئے افیون کی عمومی کاشت اورتجارت جائزنہیں،گناہ کاکام ہے،اس سے بچنالازم ہے،تاہم چونکہ فی نفسہ اس کاجائزاستعمال ممکن ہے،اس لئے اس کی آمدن حرام نہیں ہوگی،آمدن حرام ہونے کایہ مطلب نہیں کہ یہ کام کیاجائے،گناہ بہرحال ہوگا،اس لئے اگرکسی نے اس کی کاشت کی ہوتواس پرتوبہ اورآئندہ کے لئے اس سے بازرہنالازم ہے،اگرکوئی شخص حکومت سےقانون کے مطابق اجازت لے کرجائزاستعمال کے لئے اس کی کاشت اورتجارت کرے تویہ شرعاجائز ہے،اس صورت میں اس کی آمدن کاجائزہوناواضح ہے۔
حوالہ جات
فی رد المحتار (ج 15 / ص 135):
وفي كافي الحاكم من الأشربة : ألا ترى أن البنج لا بأس بتداويه ، وإذا أراد أن يذهب عقله لا ينبغي أن يفعل ذلك .
وبه علم أن المراد الأشربة المائعة ، وأن البنج ونحوه من الجامدات إنما يحرم إذا أراد به السكر وهو الكثير منه ، دون القليل المراد به التداوي ونحوه كالتطيب بالعنبر وجوزة الطيب.
وفی الفقه الإسلامي وأدلته (ج 4 / ص 177):
تحرم جميع المخدرات وهي كل ما يضر بالجسم والعقل كالبنج والأفيون والحشيشة ونحوها، لحديث أم سلمة رضي الله عنها قالت: «نهى رسول الله صلّى الله عليه وسلم عن كل مسكر ومفتِّر» ولما فيها من الإضرار بالعقل والجسم، ولما تؤدي إليه من تعطيل الأعمال والكسل والاسترخاء والخمول.
ما يستثنى من حكم المسكرات والمخدرات: يباح تناول شيء من المسكر للضرورة كإزالة اللقمة بالغصة إذا لم يوجد شراب آخر غير الخمر، ويباح التداوي بالأدوية الممزوجة بالكحول للضرورة أو الحاجة إذا لم يتوافر دواء آخر سواها. ويحل استعمال المخدر في العمليات الجراحية وتسكين الآلام الشديدة بحقنة أو شرب أو ابتلاع للضرورة.
وفی رد المحتار (ج 26 / ص 477):
و ) جاز ( بيع عصير ) عنب ( ممن ) يعلم أنه ( يتخذه خمرا ) لأن المعصية لا تقوم بعينه بل بعد تغيره وقيل: يكره، لإعانته على المعصية ونقل المصنف عن السراج: والمشكلات أن قوله: ممن أي من كافر أما بيعه من المسلم فيكره ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما ،زاد القهستاني معزيا للخانية أنه يكره بالاتفاق .
( قوله وجاز ) أي عنده لا عندهما بيع عصير عنب أي معصوره المستخرج منه فلا يكره بيع العنب والكرم منه بلا خلاف ، كما في المحيط لكن في بيع الخزانة أن بيع العنب على الخلاف قهستاني ( قوله ممن يعلم ) فيه إشارة إلى أنه لو لم يعلم لم يكره بلا خلاف قهستاني ( قوله لا تقوم بعينه إلخ ) يؤخذ منه أن المراد بما لا تقوم المعصية بعينه ما يحدث له بعد البيع وصف آخر يكون فيه قيام المعصية وأن ما تقوم المعصية بعينه ما توجد فيه على وصفه الموجود حالة البيع كالأمرد والسلاح ويأتي تمام الكلام عليه ( قوله أما بيعه من المسلم فيكره ) لأنه إعانة على المعصية قهستاني عن الجواهر .
محمد اویس
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
۱۲/ذی قعدہ ۱۴۴۵ ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |