021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جنت البقیع میں تدفین کے چند سال بعد قبر کھول کر اس میں دوسرا مردہ دفن کرنا
83863جنازے کےمسائلجنازے کے متفرق مسائل

سوال

جنت البقیع میں مردے دفنانے کے وقت کوئی دوا ڈالی جاتی ہے، جس سے  وہ جلدی ختم ہو جاتے ہیں، پھر ان قبروں سے ہڈیاں نکالتے ہیں اور نئے مردوں کو دفناتے ہیں۔ کیا اس طرح کرنا جائز ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ بات کی تحقیق کے لیے سائل کو فون کیا، لیکن رابطہ نہ ہوسکا، نہ ہی انہوں نے کوئی جواب دیا۔ اس کے بعد مدینہ منورہ میں مقیم بعض علمائے کرام سے بات کی تو انہوں نے اپنے مشاہدے، تجربے اور جنت البقیع کے گورکن سے لی گئی معلومات کی بنیاد پر بتایا کہ یہ بات مشہور ہے، لیکن درست نہیں، جنت البقیع میں تدفین کے وقت ایسی کوئی دوا نہیں ڈالی جاتی جس سے لاش جلدی مٹی بن جائے، البتہ ان کی ترتیب یہ ہے کہ تدفین کے تین، چار یا پانچ سال بعد قبر کو اطراف سے کھولتے ہیں، عین درمیان سے نہیں، اگر لاش صحیح سالم ہو تو قبر بند کردیتے ہیں اور اس پر علامت لگادیتے ہیں، پھر اس کو نہیں کھولتے، اور اگر لاش ختم ہوچکی ہو، صرف ہڈیاں ہوں تو ان ہڈیوں کو ایک طرف جمع کر کے وہاں دوسرے میت کو دفن کردیتے ہیں۔

اس صورت کا حکم یہ ہے کہ لاش مکمل مٹی ہوجانے کے بعد قبر میں دوسرے مردے کو دفنانا بلاشبہہ جائز ہے۔ اور اگر لاش صحیح سالم نہ ہو، مگر ہڈیاں موجود ہوں تو عام حالات میں (جبکہ اسی یا دوسرے قریبی قبرستان میں جگہ موجود ہو) ایسی قبر کھولنے اور اس میں دوسرا مردہ دفن کرنے سے بچنا چاہیے، لیکن جہاں جگہ کم اور اموات زیادہ ہوتی ہوں (جیسے جنت البقیع)، وہاں حاجت کی وجہ سے ہڈیوں کو ایک طرف کر کے اس قبر میں نئے مردے کو دفن کرنے کی گنجائش ہے، البتہ پرانی میت کی ہڈیوں اور نئی میت کی لاش کے درمیان اینٹیں یا مٹی رکھی جائے؛ تاکہ وہ الگ الگ رہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار (2/ 219):
وأما ترتيبهم في قبر واحد لضرورة فبعكس هذا، فيجعل الأفضل مما يلي القبلة، فتح.
رد المحتار (2/ 234-219):
قوله ( لضرورة ) إنما قيد بها؛ لأنه لا يدفن اثنان في قبر ما لم يصر الأول ترابا، فيجوز حينئذ البناء عليه والزرع، إلا لضرورة، فيوضع بينهما تراب أو لبن؛ ليصير كقبرين، ويجعل الرجل مما يلي القبلة ثم الغلام ثم الخنثى ثم المرأة، شرح الملتقى………….. قال في الفتح: ولا يحفر قبر لدفن آخر، إلا إن بلي الأول، فلم يبق له عظم، إلا أن لايوجد بد، فتضم عظام الأول ويجعل بينهما حاجز من تراب…………. ( قال في الحلية ) وخصوصا إن كان فيها ميت لم يبل، وما يفعله جهلة الحفارين من نبش القبور التي لم تبل أربابها وإدخال أجانب عليهم فهو من المنكر الظاهر، وليس من الضرورة المبيحة لجمع ميتين فأكثر ابتداء في قبر واحد قصد دفن الرجل مع قريبه أو ضيق المحل في تلك المقبرة مع وجود غيرها وإن كانت مما يتبرك بالدفن فيها، فضلا عن كون ذلك ونحوه مبيحا للنبش وإدخال البعض على البعض قبل البلاء مع ما فيه من هتك حرمة الميت الأول وتفريق أجزائه، فالحذر من ذلك اه.  وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اه.   قال في الإمداد: ويخالفه ما في التاترخانية إذا صار الميت ترابا في القبر يكره دفن غيره في قبره؛ لأن الحرمة باقية. وإن جمعوا عظامه في ناحية، ثم دفن غيره فيه تبركا بالجيران الصالحين، ويوجد موضع فارغ، يكره ذلك، اه.
قلت: لكن في هذا مشقة عظيمة، فالأولى إناطة الجواز بالبلاء؛ إذ لايمكن أن يعد لكل ميت قبر لايدفن فيه غيره وإن صار الأول ترابا، لا سيما في الأمصار الكبيرة الجامعة، وإلا لزم أن تعم القبور السهل والوعر، على أن المنع من الحفر إلى أن لايبقى عظم عسر جدا، وإن أمكن ذلك لبعض الناس، لكن الكلام في جعله حكما عاما لكل أحد، فتأمل. 
فتح القدير (2/ 141):
ولا يدفن اثنان في قبر واحد إلا لضرورة، ولا يحفر قبر لدفن آخر، إلا إن بلي الأول، فلم يبق له عظم، إلا أن لا يوجد بد، فيضم عظام الأول ويجعل بينهما حاجز من تراب. 

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

       13/ذو القعدۃ/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے