03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر کے مکرجانے کی صورت میں نکاح کے اثبات کا طریقہ
83924دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

ایک شخص نے ایک عورت سے گواہان کی موجودگی میں نکاح کیا اور قاضی صاحب نے نکاح پڑھایا،اس موقع پر عورت کی جانب سے بھی گواہان موجود تھے،شادی کے کچھ عرصے بعد تک زوجین اکٹھے رہے،اس دوران عورت کے ہاں ایک بچی کی ولادت ہوئی،پھر شوہر نے عورت کو طلاق دے دی،یہ شخص ایک سیاسی آدمی ہے،اس نے اپنی سیکٹری سے نکاح کیا تھا،لیکن اب یہ شخص نکاح سے انکاری ہے اور قاضی و گواہان جو کہ اس کے اپنے ہی تھے وہ بھی انکاری ہیں،البتہ نکاح کی تقریب میں عورت کی طرف سے جو گواہان تھے وہ گواہی دینے کو تیار ہے کہ نکاح ہوا تھا اور یہ بچی اسی مرد کی ہے،نکاح کے موقع پر اس شخص نے کہا تھا کہ یہ ریکارڈ میں نادرا میں جمع کرادوں گا،لیکن اس نے یہ ریکارڈ بھی جمع نہ کروایا،اب چونکہ شوہر،گواہان اور قاضی اس نکاح سے انکاری ہوگئے ہیں تو عورت اب اس نکاح کو شرعا کیسے ثابت کرسکتی ہے؟

عورت نے اس کو کورٹ میں چیلنج کردیا ہے اور DNA کی درخواست بھی دائر کردی ہے۔

تنقیح: نکاح کی مجلس میں لڑکی کی جانب سے صرف اس کے والدین موجود تھے،بقیہ افراد شوہر کی جانب سے تھے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شوہر کے انکار کی صورت میں نکاح کے ثبوت کے لئے شرعا نکاح کا اقرار یا شہادت کا نصاب(یعنی دو نیک اور قابل اعتماد مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں) ضروری ہے،اس کے بغیر نکاح ثابت نہیں ہوگا،لیکن والدین کی گواہی اولاد کے حق میں قبول نہیں ہوتی،تاہم نکاح کے معاملے میں ایسے افراد کی گواہی بھی قابل قبول ہے جو خود تو نکاح کی مجلس میں شریک نہ ہوئے ہوں،البتہ  انہیں دو نیک اور قابل اعتماد مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں نے اس نکاح کی خبر دی ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں نکاح کے اثبات کے لئے لڑکی کے والدین کے علاوہ مذکورہ بالا صفات کے حامل دومردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو بطورِ گواہ پیش کرنا ہوگا،اس کے بغیر شوہر کے انکاری ہونے کی صورت میں نکاح ثابت نہیں ہوگا۔

حوالہ جات

"الدر المختار" (3/ 21):

"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب بحر (مسلمين لنكاح مسلمة ولو فاسقين أو محدودين في قذف أو أعميين أو ابني الزوجين أو ابني أحدهما، وإن لم يثبت النكاح بهما) بالابنين".

قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ:" (قوله: وإن لم يثبت النكاح بهما) أي بالابنين أي بشهادتها، فقوله: بالابنين بدل من الضمير المجرور، وفي نسخة لهما أي للزوجين، وقد أشار إلى ما قدمناه من الفرق بين حكم الانعقاد، وحكم الإظهار أي ينعقد النكاح بشهادتهما، وإن لم يثبت بها عند التجاحد وليس هذا خاصا بالابنين كما قدمناه".

"البحر الرائق " (7/ 80):

"(قوله :والولد لأبويه وجديه وعكسه) أي لم تقبل شهادة الفرع لأصله والأصل لفرعه للحديث ولأن المنافع بين الأولاد والآباء متصلة ولهذا لا يجوز أداء الزكاة إليهم فتكون شهادة لنفسه من وجه".

"معین القضاة والمفتین" (ص:39)

"الاصل فی الشھادة ان تکون مبنیة علی معاینة الشاھد الا ان بعض الاشیاء ممایتعذر علی کثیر من الناس مشاھدتھا فتقبل فیہا الشھادة بالتسامع لئلاتضیع حقوق الناس ،لکن الشھادة بالتسامع انما تقبل اذا اشتھرت لدی الشاھد باحد طریقی الشھرة اماالشھرة حقیقة او حکمیة وھی ان تکون بشھادة عدلین او عدل وعدلتین".

"الدر المختار" (5/ 471):

"(فله الشهادة بذلك إذا أخبره بها) بهذه الأشياء (من يثق) الشاهد (به) من خبر جماعة لا يتصور تواطؤهم على الكذب بلا شرط عدالة أو شهادة عدلين إلا في الموت، فيكفي العدل ولو أنثى وهو المختار ملتقى وفتح، وقيده شارح الوهبانية بأن لا يكون المخبر منهما كوارث وموصى له".

قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ : (قوله عدلين) يعني ومن في حكمهما وهو عدل وعدلتان كما في الملتقى".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

18/ذی قعدہ1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب