83944 | خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائل | متفرّق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
میرانام محمداکرم ولد برکت علی ہے ،ہم کل سات بھائی تھے جن میں سے دو بھائی عبدالرشید اورمحمد صادق وفات پاچکے ہیں اورہماری تین بہنیں تھیں جن میں سے ایک بہن وفات پاچکی ہے ۔
گزارش یہ ہے کہ میرے سارے بھائی الگ الگ اپنے اپنے گھروں میں رہائش پذیرتھے ،لیکن میرے بڑے بھائی محمدانوراورایک بہن اورمیرا مرحوم بھائی صادق علی میرے ساتھ میرے ذاتی گھر میں رہائش پذیرتھے جن میں سے محمد انورکا ذہنی توازن کچھ ٹھیک نہیں اوربہن بھی وفات پاچکی ہے،جناب محمد صادق میرا مرحوم بھائی اپنی حیات میں نشے کا عادی تھا،اس کا ایک بیٹا بھی تھا ،اس کی بیگم نے محمدصادق سے طلاق لے لی تھی اوربیٹا بھی اپنےساتھ لے گئی تھی،جناب میں نے اپنی جائیداد میں سے 120گزکاایک پلاٹ میں سے آدھی جگہ محمد صادق کو رہنے کےلیے دی تھی اوراس مکان کی ملکیت کا اسٹام پیپربھی لکھ کردیا تھا،مگرمحمد صادق نے کوئی رقم ادا نہیں کی تھی، بیع میں میں نے یہ شرط رکھی تھی کہ یہ پلاٹ محمداکرم یعنی میری اجازت کے بغیرنہیں بک سکتا،جناب اب محمد صادق کی وفات ہوگئی ہے، اس کی وفات کے بعد میرے دوسرے بھائی اس پلاٹ پر قابض ہوگئے ہیں اورمحمدصادق کے بیٹے کے رشتہ داروں سے بھی رابطہ کررہے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ پلاٹ محمد صادق اورمیرے بڑے بھائی محمدانورکی ملکیت ہے،حالانکہ میں نے یہ پلاٹ محمد صادق کو صرف رہنے کےلیے دیاتھا جوکہ اب وفات پاچکاہے،میری عرض یہ ہے کہ مجھے فتوی لکھ کردیا جائے کہ
آیایہ پلاٹ میرا بنتاہے کہ نہیں،والدہ کی خوشی اورتسلی کےلیے یہ پلاٹ میں نےمحمدصادق کولکھ کردیاتھا،اس میں میرے بھائی محمدانوریا کسی اورکا کوئی عمل دخل نہیں بنتا،نیز یہ بھی بتادیں کہ صادق کے بیٹے کا اس پلاٹ پر کوئی حق ہے یانہیں؟ جبکہ محمد صادق کی سابقہ بیگم کی شادی اسکی حیات میں ہی کسی اورشخص سے ہوچکی تھی ،برائے کرم میری رہنمائی فرمائیں۔
سائل سے فون پرجو تفصیلی با ت ہوئی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسئولہ صورت میں مرحوم صادق (مشتری)کے بھائیوں کا دعوی ہے کہ یہ مکان محمداکرم نے مرحوم صادق پر فروخت کیاتھا اورقیمت بھی وصول کی تھی، جبکہ محمداکرم (سائل)کا دعوی یہ ہے کہ مکان میں نے بیچا ہی نہیں اورنہ ہی قیمت کے طورپر کوئی رقم وصول کی ہے، بلکہ یہ استعمال کےلیے میں نے صادق کو دیاتھا اورمنسلکہ کاغذصرف ماں کی خوشنوی کےلیے لکھا گیا تھا،کیونکہ اس بھائی کے پاس پلاٹ نہیں تھا اورباقی بھائیوں کےپاس پلاٹ تھا اس لیےمیں نے ماں کو خوش کرنےیہ کیا،استعمال کےلیے دینے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس میں میں نے کوئی قیمت طے نہیں کی تھی، جبکہ آدمی جب بیع کرتاہے تو قیمت طے کرتاہے ۔ مذکورہ پلاٹ وفات تک محمد صادق کے پاس رہا، وہ والدہ کے ساتھ اس میں رہائش پذیرتھا،اوراب ان کی وفات کے بعد سائل کے بھائیوں نےاس پرقبضہ کیاہے ان کا دعوی یہ ہےکہ بھائی محمدصادق نے آپ سے خریداتھا اورقیمت ادا کی تھی، اس لیے ہمارا بھی اس میں حصہ بنتا ہے،گواہ ان میں سے کسی کے پاس نہیں ہے، بس منسلکہ کاغذہی ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مسئولہ صورت میں جب محمد صادق کا بیٹا موجودہے تو وہی صادق کا وارث ہے، اس کے ہوتے ہوئے صادق کے بھائی اس کے وارث نہیں بن سکتے،لہذا ان کا اس مکان میں کوئی حق نہیں ہے،یہ معاملہ صادق مرحوم کے بیٹے اوربائع محمد اکرم کے درمیان ہے،بھائیوں پر لازم ہے کہ مکان کا قبضہ چھوڑکر اس معاملہ سے الگ ہوجائیں کیونکہ ان کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔
جہاں تک مرحوم محمد صادق کے بیٹے کا تعلق ہے تو اگروہ بھی وہی دعوی کررہاہو جو آپ کے بھائی کررہے ہیں تو مسئولہ صورت میں فریقین (آپ اورمحمد صادق کے بیٹے)میں سے ہرایک من وجہ مدعی ہے اورمن وجہ مدعی علیہ ہے،کیونکہ محمد صادق کا بیٹا بیع کا دعوی کرتاہے جس کی تائید منسلکہ تحریربھی کررہی ہے(جس کے آپ بھی تاویل کے ساتھ معترف ہیں) اورآپ اس دعوی سےمنکر ہیں اورآپ عاریت یعنی رہائش کےلیے پلاٹ دینے کی بات کرتے ہیں جس کا محمد صادق کا بیٹا منکرہے اورآپ دونوں کے پاس گواہ نہیں ہیں،تاہم چونکہ بیع اورعاریت میں سے بیع قوی عقدہے، نیزاس کی تائید منسلکہ تحریرسے بھی ہوتی ہےلہذا اس کو بیع قراردیاجائے گا، تاہم چونکہ اس میں ثمن طےنہیں ہواجیسے کہ منسلکہ تحریراورزبانی گفتگوسے واضح ہےجبکہ بیع کے صحیح ہونے کے لیے ثمن(قیمت) کا طے ہونا شرط ہے،اور ثمن طے نہ ہونے کی صورت میں بیع فاسد ہو جاتی ہے جسے فسخ کرنا لازم ہوتاہے،اس بناء پر صورتِ مسئولہ میں فسادِ بیع بسب جہالتِ ثمن بائع اور مشتری دونوں پرلازم ہے کہ اس عقد کو ختم کر کے نئے سرے سے عقد کریں(اگرکرناچاہیں)اور بائع (محمد اکرم) نے اگرکچھ رقم واقعةً اپنے مشتری بھائی (محمد صادق مرحوم)سے وصول کی ہےجیسےکہ مرحوم کے بھائی کہہ رہے ہیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ رقم مشتری بھائی (محمد صادق مرحوم) کے ورثہ کو واپس کردےاوراگرکوئی رقم وصول نہیں کی توکچھ رقم لوٹانا لازم نہیں ۔
حوالہ جات
وفی الھندیۃ: (6/450 ط: دار الفکر)
ويسقط الإخوة والأخوات بالابن وابن الابن وإن سفل.
وفی مشکاۃ المصابیح:
عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين.(باب الغصب والعارية، ج:1، ص:254، ط:قديمي)
وفی شرح الوقایة (3/22):
والشراء احق من ھبة وصدقة مع قبض (وکذاعاریة).
قال الشیخ عبد الحئی اللکنھوی رحملہ فی حاشتہ علی شرح الوقایة:
اذا ادعیاملکامقیدافلابد من النسبة الی سبب فان کان السبب المنسوب متحدا فھما سواء فی الاستحقاق وان کان مختلفافینظرالی قوتہ وضعفہ .
وفی الفتاوی الھندیۃ(3/3) :
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ: وأما شرائط الصحة ،فعامة وخاصة ،فالعامة.......... ومنها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة ،فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح ،كبيع شاةمن هذا القطيع وبيع شيء بقيمته وبحكم فلان.
وفی تحفة الفقهاء (2/ 62):
ولو مات المشتري شراء فاسدا فورثه الورثة فللبائع حق الفسخ وكذلك للورثة لأن الوارث يقوم مقام الميت في حق الفسخ ولهذا يرد بالعيب ويرد عليه.
قال العلامۃفرید الدین الھندی رحمہ اللہ:
ولو مات البائع،کان لوارثہ أن یسترد المبیع بحکم الفساد.(الفتاوی التاتارخانیۃ:8/454)
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ:
وکذا ٌذا مات البائع، فلورثتہ ولایۃ الاسترداد کذا فی البدائع.(الفتاوی الھندیۃ:4/155)
وفی الفتاوى الهندية(3/149) :
ولو رد المشتري المبيع على بائعه في الشراء الفاسد انفسخ العقد على أي وجه رد عليه ببيع أو هبة أو صدقة أو بعارية أو وديعة.
وفیہ أ یضا:4/6)
وقالوا أیضاً:ولو باعہ و سکت عن الثمن،یثبت الملک إذا اتصل بہ القبض فی قول أبی یوسف و محمد رحمھما اللہ کذا فی الخلاصۃ.ویلزم علی البائع قیمۃ العبد.
وفی الشامیة:
"وسيأتي أنه معصية يجب رفعها، وسيأتي في باب الربا أن كل عقد فاسد فهو ربا، يعني إذا كان فساده بالشرط الفاسد."(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،ج:5،ص:49،ط:سعید)
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (4/ 64) :
قال - رحمه الله - (ولكل منهما فسخه) يعني على كل واحد منهما فسخه؛ لأن رفع الفساد واجب عليهما واللام تكون بمعنى على قال الله تعالى {وإن أسأتم فلها} [الإسراء: 7] أي فعليها ويتمكن كل واحد منهما من الفسخ قبل القبض بعلم صاحبه؛ لأن البيع الفاسد لا يفيد الملك قبل القبض فكان بمنزلة البيع الذي فيه الخيار فكان كل واحد منهما بسبيل من فسخه من غير رضا الآخر لكنه يتوقف على علمه لأن فيه إلزام الفسخ له فلا يلزمه بدون علمه، وأما بعد القبض فإن كان الفساد في صلب العقد بأن كان راجعا إلى أحد البدلين كالبيع بالخمر أو الخنزير فكذلك ينفرد أحدهما بالفسخ لقوة الفساد وإن كان الفساد لشرط زائد بأن باع إلى أجل مجهول أو غيره مما فيه منفعة لأحد المتعاقدين يكون لمن له منفعة الشرط الفسخ دون الآخر عند محمد؛ لأن منفعة الشرط إذا كانت عائدة إليه كان قادرا على تصحيحه بحذف الشرط فكان في حقه بمنزلة الصحيح لقدرته عليه فلو فسخ الآخر لأبطل حقه عليه وعندهما لكل منهما فسخه؛ لأنه مستحق النقض حقا للشرع فانتفى اللزوم عن العقد ومن له النفع قادر على تصحيحه بالحذف أو الكلام على ما قبل التصحيح فيفسخه بعلم صاحبه في الكل.
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
18/11/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |