83933 | طلاق کے احکام | طلاق سے رجو ع کا بیان |
سوال
ہمارے درمیان تقریباً ایک سال پہلےتنسیخِ نکاح پرمباراۃ نامہ واقع ہوااور اس سارے عمل میں سٹیمپ پیپر پر دونوں نے سائن کیے، لیکن منہ سے الفاظ ادا نہیں ہوئے ۔ یونین کونسل نے بھی طلاق سرٹیفکیٹ جاری کردیا ہے جبکہ اس دوران ہم کبھی روبرو نہیں ہوئے۔ کیا کوئی رجوع کی صورت باقی ہے ؟ ہم حلالہ کی طرف نہیں جانا چاہتے ۔
تنقیح:استفسارپرسائل نے"سرٹیفیکیٹ طلاق"اورغیرعدالتی(Non-Judicial)" مباراۃ نامہ ما بین فریقین بابت تنسیخِ نکاح "شیئر کیاجو ہائی کورٹ کے وکیل کی طرف سے تصدیق شدہ (Attested) ہے،سائل نے اس پر اپنے دستخط کرنے کا اس طرح اقرار کیا کہ چھوٹی سی بات پراختلاف سے بات بڑھتی گئی ،جس پر ان سے طلاق کا مطالبہ کیا گیامگر انہوں نے طلاق سے انکار کرتے ہوئےخلع لینے کا کہا اور بالاخر اس مباراۃ نامہ کی نوبت آئی۔
اس کے بعد یونین کونسل میں تین بار بلانے سے تیسری بار تک اس (شوہر) نے وہاں اپنی طرف سے طلاق نہ دینے کا کہنے کےباوجود آخر کارمجبورا خالی پیپر پر دستخط کرنے کا بتایا اوریہ کہ اس دوران منہ سے طلاق کے الفاظ بھی ادا نہ کیے،چنانچہ " ثالثی کونسل راوالپنڈی کینٹ " نے ناکامئِ مصالحت کی بناء پر بروئے فیصلہ مورخہ 2023 /09/28 طلاق مؤثر قرار دی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسولہ میں غیر عدالتی(Non-Judicial) "مباراۃ نامہ ما بین فریقین بابت تنسیخِ نکاح" فقہی لحاظ سے مباراۃ بمعنیٰ خلع ہےجو کہ طلاقِ بائن کےحکم میں ہے،کیونکہ اس مباراۃ نامہ میں مذکورشرائط میں سے پہلی شرط کی عبارت یہ ہےکہ "فریقین بروئے مباراۃ نامہ ہذا ایک دوسرے کو باہمی حقِ زوجیت سے آزاد کرتے ہوئے باہمی رضا مندی کے ساتھ تنسیخِ نکاح کو تسلیم کرتے ہیں"،نیز دوسری شرط میں یہ واضح کیا گیا کہ" فریق اول کی جانب سے فریق دوم کو دیے گئے تمام تر زیورات و دیگر اشیاء تحائف وغیرہ فریق اول کی تحویل و قبضہ میں ہیں...اب فریقین کے مابین کسی قسم کا کوئی لین دین باقی نہ رہا ہےاور نہ ہی فریقین کسی باہمی لین دین کے دعویدار ہیں"۔
اس مذکورہ مضمون میں خلع کا مفہوم آگیاکہ گویا بیوی کی طرف سے زیورات و دیگر تحائف کے عوض شوہر اسے حقِ زوجیت سے آزاد کر رہا ہے، نیز مباراۃ کا لفظ بطورِ عنوان اور حقِ زوجیت سےآزاد کرتے ہوئے تنسیخِ نکاح کے الفاظ بھی واضح طور پر لکھے ہوئے ہیں، چنانچہ جب سٹیمپ پیپر میں موجود مباراۃ نامہ پرفریقین کے دستخط موجود ہیں اور شوہر نے اپنے دستخط کے بارے میں خود اقراربھی کیا ہےتو اس سے مباراۃ بمعنی خلع واقع ہو گئی اگرچہ نیت نہ ہو یامنہ سےمباراۃ،
خلع یا طلاق کے الفاظ ادا نہ ہوئے ہوں، کیوں کہ پیپر پر دستخط کرنا اس میں موجود مضمون کا اقرار کرنا ہے۔
اور جب تین سےکم بائنہ طلاقیں واقع ہوئی ہوں تو عدت کے دوران یا اس کے بعدفریقین باہمی رضا مندی سے مہرِ جدید کےساتھ دوبارہ نکاح کر کے رجوع کر سکتے ہیں اور تین طلاقیں دی ہوں تو بغیر حلالہ کے رجوع نہیں ہوسکتا، چنانچہ صورتِ مسولہ میں کونسل راوالپنڈی کینٹ کی طرف سے جاری کردہ "سرٹیفیکیٹ طلاق" کی حیثیت مذکورہ مدت میں صرف رجوع واقع نہ ہونے کے ثبوت کی ہے اوراس سے دوسری طلاق ثابت نہیں ہوتی ،لہذا اب عدت گزرجانے کے بعداگر عورت کسی اور کےنکاح میں نہیں ہے تو فریقین اپنی رضامندی سے از سرِ نو نکاح کر کے رجوع کر سکتے ہیں، اور نکاح ہوجانے کی صورت میں پھر شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا حق باقی رہے گا۔
حوالہ جات
الموسوعة الفقهية الكويتية (1/ 143):
أما (المبارأة) فهي مفاعلة وتقتضي المشاركة في البراءة . وهي في الاصطلاح اسم من أسماء الخلع، والمعنى واحد، وهو بذل المرأة العوض على طلاقها. لكنها تختص بإسقاط المرأة عن الزوج حقا لها عليه. فالمبارأة صورة خاصة للإبراء تقع بين الزوجين لإيقاع الزوج الطلاق - إجابة لطلب الزوجة غالبا - مقابل عوض مالي تبذله للزوج، هو تركها ما لها عليه من حقوق مالية، كالمهر المؤجل، أو النفقة المستحقة في العدة...ولابن نجيم من الحنفية رسالة في الطلاق الموقع في مقابلةالإبراء، حقق فيها أنه يقع بائنا لوقوعه بعوض.
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 264):
قال: "والمبارأة كالخلع كلاهما يسقطان كل حق لكل واحد من الزوجين على الآخر مما يتعلق بالنكاح عند أبي حنيفة " رحمه الله ، وقال محمد رحمه الله لا يسقط فيهما إلا ما سمياه وأبو يوسف رحمه الله معه في الخلع، ومع أبي حنيفة رحمه الله في المبارأة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 441):
وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 445):
وفي البحر عن البزازية: فلو كانت المبارأة أيضا كذلك: أي غلب استعمالها في الطلاق لم تحتج إلى النية وإن كانت من الكنايات ،وإلا تبقى النية مشروطة فيها وفي سائر الكنايات على الأصل اهـ وفيه إشارة إلى أن المبارأة لم يغلب استعمالها في الطلاق عرفا، بخلاف الخلع فإنه مشتهر بين الخاص والعام فافهم.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 246):
(قوله كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب...وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو.
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ ، 257):
"وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها " لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله ومنع الغير في العدة لاشتباه النسب ولا اشتباه في إطلاقه " وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة أو ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها " والأصل فيه قوله تعالى: {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ} [البقرة: 230] .
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409):
(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب.
محمدعبدالمجیدبن مریدحسین
دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
20 /ذی قعدہ/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمدعبدالمجید بن مرید حسین | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |