021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فائلز نام کرنے سے پلاٹ کاحکم
84010ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

بعد ازسلام عرض ہے کہ محمد یعقوب مرحوم نے اپنی زندگی میں دوعدد پلاٹ کی فائلز اسلام آباد میں کل قیمت کا کچھ حصہ ادا کرکے خریدیں۔ان دونوں میں سے ایک فائل بیوی اور دوسری فائل عبد الرافع، جو کہ مرحوم کا لے پالک بیٹا اوربڑے بھائی کی اولاد ہے، کے نام کردیے۔اب سوال یہ ہے کہ ان حالات میں شریعت کیا کہتی ہے؟دونوں فائلز کے بارے میں مرحوم نے اپنی حیات میں ہی اپنی بیوی کو اور بیٹے کو بتابھی دیاتھا اور فائلز ان کے حوالے بھی کردی تھی،ان فائلز کی بقیہ رقم بھی اقساط کی صورت میں واجب الاداء ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔زمینی نقشہ نہ بنا ہو،البتہ  زمین کی حد بندی اور اس کے مجموعی رقبہ کے مطابق جاری  فائلوں میں کسٹمرکو پلاٹ نمبر بتائے بغیر صرف یہ بتایا گیاہو کہ اس سیکٹر کی حدود میں ایک پلاٹ ملے گا، یہ نہیں بتایا جاتا کہ مسجد، پارک اور روڈ سے کتنے فاصلے پر ہو گا؟  اس مرحلے پر سوسائٹی سے پلاٹ خریدنا جائز ہے، البتہ  اضافی رقم پر آگے بیچنا جائز نہیں،لہذا اس صورت میں پہلی دفعہ کی فائل خریدنا اور کسی کو ہدیہ (گفٹ)کرنا جائزہے۔ 

2۔اگرزمینی نقشہ بن چکا ہو اور فائل خریدنے والے شخص کو خریدے جانے والےپلاٹ کا علم ہو یازمین پر ابھی نقشہ نہ بناہو، البتہ زمین کی حد بندی ہو چکی ہو ، کاغذی یا ڈیجیٹل شکل میں نقشہ تیار ہو چکا ہو اوراس نقشہ کی مدد سے پلاٹ کے اوصاف اور اس  کا محل وقوع (Location)معلوم کیا جا سکتا ہو تو ایسی صورت میں فائل ایک متعین پلاٹ کی نمائندگی کرتی ہے، اس لیےاس کو خریدنا اوراضافی رقم پر آگے فروخت کرنا جائز ہے۔اس صورت میں بھی گفٹ کرنا درست ہے۔

تاہم ان دونوں صورتوں میں اہلیہ اور بیٹے کو یہ پلاٹ ملکیت کے طور پر دینے کےلیے ایک لازمی شرط یہ بھی ہے کہ فائل ان کے حوالے کرکے اپنے اختیارات بھی ختم کیے ہوں۔ایسی صورت میں ان دونوں کی ملکیت ثابت ہوگئی ہے،اور مزید اقساط کی ادائیگی بھی ان کے ذمہ لازم ہوگی۔

حوالہ جات
وفي الدرالمختار(6/259):
 (وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والاصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلا لا، فلو وهب جرابا فيه طعام الواهب أو دارا فيها متاعه، أو دابة عليها سرجه وسلمها كذلك لا تصح وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط لأن كلا منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به لأن شغله بغير ملك واهبه لا يمنع تمامها كرهن وصدقة لأن القبض شرط تمامها

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

24/ذوالقعدہ1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے