021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہرکی جانب سےحقوق کی معافی کاحکم
83996جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

ہماری شادی کو تقریبا 40 سال ہو گئے ہیں. ہمارے پانچ بچے ہیں. ماشاء الله . ہمارے آپس کےتعلقات کبھی اچھے نہ رہے، شوہرمجھ سے اور میرے والدین سے بد سلوکی کرتے ۔

بچوں کی اور میری ضروریات کا خیال نہیں رکھتے ۔ جوائنٹ فیملی ہونے کیوجہ سے کھانا پینا ساتھ ہو جاتا تھا۔میرے شوہر کا ذریعہ آمدنی بہت کم تھا ۔ ڈاکٹر ہیں مگر نوکری سال میں دو یاتین ماہ ہی کرتے تھے۔بچوں کی ضروریات پوری کرنےکے لیےمیں نے خواتین کے ادارے میں باپردہ نوکری کی، جس کو چھڑوانے پر اصرار کرتے اور اس طرح مجھے ذہنی اور جسمانی طور پر تکلیف دیتے۔بچوں کے حالات دیکھتے ہوئے مداخلت کی کوشش کی، جس سے بچوں کی اپنے والد کے ساتھ اختلافات پیدا ہونا شروع ہو گئے اور دوریاں بڑھ گئیں۔میرے اور بچوں کے حقوق و فرائض میں کوتاہی اور اپنی بد سلوکیوں کو وہ اپنی نفسیاتی بیماری وجہ بناتے ۔ جبکہ اپنے والدین ،شادی شدہ بہن بھائی کی تمام ذمہ داریاں خوش اسلوبی سےادا کرتے تھے۔ہمیں گھر کا ایک فلور دیا ہوا ہے،باقی کسی قسم کی ذمہ داری نہیں اُٹھاتے ہیں۔میں رات کا کھانا باقاعدگی سے بھیجتی ہوں۔تقریبا 20 سال سے میں اور بچے مل کر گھر چلا رہے ہیں۔ ہماراکچن الگ کر دیا گیا 24 سال پہلے۔اب یہ دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں مگر مجھے خلع نہیں دے رہے۔میں نے بگڑتے ہوے حالات میں کئی دفعہ خلع کا کہا ،مگر تیار نہیں ہیں۔ ان کو ڈر ہے کہ بچے بالکل الگ ہو جائیں گے ۔میرے .شوہر مجھ سے اور بچوں سے ماضی میں حقوق و فرائض کی ادائیگی میں کوتاہیوں کو معاف کر رہے ہیں یعنی علیحدہ رہنے کی وجہ سے اور آپس میں اختلافات کی وجہ سے جو گناہ ہم سے ہوئے ہیں ،معاف کرنے کو تیار ہیں.

1۔کیا ان کے معاف کرنے پر میں اور بچے اپنی کوتاہیوں اور گناہ سے پاک ہو جائیں گے ؟نکاح میں رہتے ہوئے آئندہ زندگی کے بھی حقوق و فرائض کو معاف کرنے تیار ہیں تاکہ میں خلع نہ لوں۔

2۔کیا یہ جائز ہے کہ میں نکاح میں ہوتے ہوئے شوہر کے حقوق و فرائض سےبری رہوں اور مجھ پر اس کا گناہ نہ ہو؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ شریعت میں میاں بیوی کے باہمی حقوق کو بہت اہمیت دی گئی  ہے اور  دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق اداکرنےکی بہت تاکید کی گئی ہے، ازدواجی رشتہ ،میاں بیوی پر ایک دوسرے کےلیے کئی حقوق  لازم کردیتا ہے،مثلا: بیوی پرشوہر کی خدمت و اطاعت کرنا اور اس کی نافرمانی سے بچنااور شوہر پر بیوی کا مہر،نان و نفقہ،رہائش، وغیرہ۔

شریعت نےمرد کو ایک وقت میں ایک سے زائد شادی کرنے کی اجازت دی ہے، بشرطیکہ وہ تمام بیویوں کے جسمانی و مالی  حقوق کی ادائیگی پر قادر ہو اور تمام بیویوں کے درمیان عدل و انصاف قائم رکھ سکتا ہو، اسی طرح بیوی کے ذمہ بھی شوہر کے حقوق کی رعایت کرنا لازم ہے،تاہم اگر شوہر پہلے کی حق تلفی پر   معاف کردیتاہے اوررہائش وغیرہ فراہم کرکے خود ہی  بیوی سے مستقبل کے حوالے سے بقیہ حقوق کا مطالبہ نہیں کرتاتو اس سے بیوی  گناہ گار نہیں ہوگی،البتہ شوہر کی عزت،احترام بہرحال لازم ہے۔

حوالہ جات
مشکاۃ المصابیح، (2/280):
عن أبي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: إذا كانت عند رجل إمرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة و شقه ساقط". رواه الترمذي و أبو داؤد۔
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح»".(
" مشکاۃ المصابیح(2/281):
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» . رواه الترمذي".(
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم» . رواه الترمذي".(

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

26/ذیقعدہ1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے