84096 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
فاطمہ نامی خاتون کا انتقال ہوا، اس کے شوہر، والدین، دادا، دادی اور نانی کا انتقال اس کی زندگی میں ہوگیا تھا، جبکہ بچے نہیں تھے۔ فاطمہ کے انتقال کے وقت اس کی ایک بہن زینب اور دو بھتیجے زید اور حامد حیات تھے۔ فاطمہ اپنے مرحوم بھتیجے بکر کے گھر میں رہتی تھی۔ فاطمہ کے سامان سے کچھ سونا ایسا بھی ملا جس کا مالک معلوم نہیں تھا۔ بکر کے بیٹوں اور اہلیہ کا کہنا تھا کہ یہ سونا فاطمہ کی بھانجی (زید کی اہلیہ) کا ہے۔ فاطمہ کے تینوں ورثا (زینب، زید اور حامد) کہہ رہے تھے کہ یہ سونا فاطمہ کا نہیں، لیکن کس کا ہے؟ اس بارے میں انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ جبکہ فاطمہ کی وہ بھانجی (زید کی اہلیہ) خود انکاری تھی، وہ کہہ رہی تھی یہ سونا میرا نہیں۔ کوئی اور مدعی بھی نہیں تھا۔ اس لیے بکر کے ایک بیٹے اور زید نے باہم مشورہ سے فاطمہ کی وفات کے ایک، دو ماہ بعد اس سونے کو بیچ کر کچھ رقم سرکاری اسکول کی تعمیر میں صدقہ کرلی، جبکہ باقی مسجد یا مدرسے میں دیدی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کرنا درست تھا یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
فاطمہ کے سامان سے جو سونا ایسا ملا تھا جس کا مالک معلوم نہیں تھا، اسے ایک دو ماہ بعد صدقہ نہیں کرنا چاہیے تھا، بلکہ مناسب وقت تک اس کی مزید حفاظت اور تشہیر کرنی چاہیے تھی۔ بہر حال اب جب سرکاری اسکول اور مسجد میں اسے صدقہ کرلیا ہے تو صدقہ درست ہوگیا ہے، اگرچہ بہتر یہ تھا کہ کسی فقیر کو مالک بنا کر دیدیتے۔
یہ تو مالک معلوم نہ ہونے کی صورت میں اس سونے کے صدقے کا حکم ہوا، لیکن اگر اس کا مالک آگیا اور ثابت کیا کہ وہ سونا میرا تھا اور اس صدقہ پر راضی نہیں ہوا، بلکہ سونے کا مطالبہ کیا تو جن افراد نے یہ سونا صدقہ کیا ہے، ان پر اس کو اتنا سونا دینا لازم ہوگا، ایسی صورت میں وہ سونا صدقہ کرنے والوں کی طرف سے صدقہ شمار ہوگا۔
حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (11/ 4):
قال في اللقطة: يعرفها حولا، فإن جاء صاحبها، وإلا تصدق بها، فإن جاء صاحبها فهو بالخيار، إن شاء أنفذ الصدقة وإن شاء ضمنه…….والتقدير بالحول ليس بعام لازم في كل شيء، وإنما يعرفها مدة يتوهم أن صاحبها يطلبها، وذلك يختلف بقلة المال وكثرته، حتى قالوا في عشرة دراهم فصاعدا يعرفها حولا؛ لأن هذا مال خطير يتعلق القطع بسرقته ويتملك به ماله خطر، والتعريف لإيلاء العذر، والحول الكامل لذلك حسن، وفيما دون العشرة إلى ثلاثة يعرفها شهرا، وفيما دون ذلك إلى الدرهم يعرفها جمعة، وفي دون الدرهم يعرف يوما، وفي فلس أو نحوه ينظر يمنة ويسرة ثم يضعه في كف فقير. وشيء من هذا ليس بتقدير لازم؛ لأن نصب المقادير بالرأي لا يكون، ولكنا نعلم أن التعريف بناء على طلب صاحب اللقطة، ولا طريق له إلى معرفة مدة طلبه حقيقة، فيبني على غالب رأيه، ويعرف القليل إلى أن يغلب على رأيه أن صاحبه لا يطلبه بعد ذلك، فإذا لم يجيء صاحبها بعد التعريف تصدق بها..… الخ
المجلة (ص: 145):
مادة 769: إذا وجد شخص في الطريق أو في محل آخر شيئا …….لو أخذه على أن يرده لمالكه فإن كان مالكه معلوما كان في يده أمانة ويلزم تسليمه إلى مالكه، وإن لم يكن مالكه معلوما فهو لقطة، ويكون في يد ملتقطه أي آخذة أمانة أيضا.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
03/ذو الحجۃ/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |