84078 | جائز و ناجائزامور کا بیان | کھیل،گانے اور تصویر کےاحکام |
سوال
ڈھول اوردف میں کیافرق ہے؟اوران دونوں میں سےکونسی چیزشریعت کی نظرمیں جائزاور کونسی ناجائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ڈھول کی آواز اندر گم ہوکر اوربند ہوکر نکلتی ہے جس سے آواز میں سرپیدا ہوتا ہے اور انسانی جذبات پر اثر انداز ہوتی ہے، البتہ دف ایک طرف سے خالی ہوتا ہےاور اس کی آواز بنداور گم ہوکرنہیں نکلتی،جس سےآواز میں سادگی ہوتی ہےاورانسانی طبیعت پر اثر کم ہوتا ہے، بعض مخصوص مواقع کے علاوہ شادی وغیرہ کےموقع پر ڈھول بجانا ناجائز اور حرام ہے، جبکہ دف بجانے کی مشروط اجازت ہے،شرائط یہ ہیں:
1. دف گنگرو کے بغیر ہو ۔
2. بجانے والے بھی عورتیں ہوں اورعورتوں کے سامنے بجائیں نہ کہ مردوں کے سامنے۔
3. موسیقی کے کسی خاص دھن یا ساز پر نہ بجایا جائے۔
4. کسی فتنے یا ناجائز امر کا ذریعہ بھی نہ بنے۔
5. نکاح جیسے موقع پر اس کی مختصرا اجازت ہے۔
لہذا جہاں کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے مثلا نکاح جیسے موقع کے علاوہ کسی دوسرےموقع بجایا جائے پریادف بجانےوالےمردہوں یاعورتیں ہوں،لیکن مردوں کےسامنے بجائیں یا گھنگرو دار دف بجائیں یا کسی خاص موسیقی کے ساز اور دھن پر بجائیں یا کسی گناہ کا ذریعہ بنے تو ایسی کسی بھی صورت میں دف بجانا جائز نہیں۔
حوالہ جات
المحيط البرهانى - (ج 8 / ص 282)
اختلف الناس في ضرب الدف في العرس قال بعضهم: لا بأس لما روي عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «أعلنوا النكاح، واجعلوه في المساجد، واضربوا عليه بالدفوف» ۔۔۔۔۔وقال بعضهم: يكره لقوله عليه السلام: «كل لهو المؤمن باطل إلا ثلاث؛ تأديبه فرسه ورميه عن قوسه وملاعبته مع أهله» قال الفقيه أبو الليث رحمه الله: الدف الذي يضرب في زماننا هذا مع الصنجات والخلاخلات ينبغي أن يكون مكروهاً، وإنما الخلاف في الذي كان يضرب في الزمن المتقدم.
رد المحتار - (ج 22 / ص 201)
( قوله ضرب الدف فيه ) جواز ضرب الدف فيه خاص بالنساء لما في البحر عن المعراج بعد ذكره أنه مباح في النكاح وما في معناه من حادث سرور .قال : وهو مكروه للرجال على كل حال للتشبه بالنساء .
نواب الدین
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
04/ ذی الحجہ1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | نواب الدین | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |