021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوہ، تین بیٹوں اور دو بیٹیوں میں ترکہ کے بلڈنگ کی تقسیم
84092میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے، انہوں نے اپنی زندگی میں چار منزلہ بلڈنگ بنائی تھی، یہ مکان میرے شوہر کے نام ہے۔ میں نے اس گھر کے لیے 2003ء میں اپنا زیور بیچا تھا، جو اس وقت دو لاکھ کا فروخت ہوا تھا۔

میرے پانچ بچے ہیں، 2  بیٹیاں اور 3 بیٹے۔ بیٹے تینوں میرے ساتھ رہتے ہیں اور شادی شدہ ہیں۔ تینوں بیٹوں کو ان کے والد نے آدھا آدھا پورشن دیا ہے،  ان کے والد کی زبانی وصیت تھی کہ آدھے آدھے پورشن میں بیٹے رہیں گے، اور اور آدھے آدھے جو تین پورشن ہیں، ان کا کرایہ جب تک میری بیوی حیات ہے، تب تک وہ لے گی۔ میں اس کرایے میں اپنا پورا خرچہ اٹھاتی ہوں، اپنے بچوں سے کوئی خرچہ نہیں لیتی،  بلکہ گھر میں ٹوٹ پھوٹ یا سیوریج کا کوئی کام ہو تو وہ میں اس کرایہ سے کرتی ہوں، چاہے  ہزاروں کا ہو یا لاکھوں کا، میں اپنے بیٹوں سے کچھ نہیں لیتی۔

میرے بیٹے کہتے ہیں اس پر تمہارا کوئی حق نہیں ہے، یہ ہمارا احسان ہے کہ ہم تمہیں کرایہ لینے دیتے ہیں۔ ایک بیٹا کہتا ہے کہ مجھے حصہ دو، میں نے اس سے کہا تم اپنا پورشن اور جس کا کرایہ میں لیتی ہوں وہ بیچ کر چلے جاؤ، مگر وہ کہتا ہے کہ پوری بلڈنگ بیچ کر مجھے حصہ دو۔ میرے باقی دو بیٹے اس پر راضی نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ اپنا پورشن بیچ کر چلا جائے۔ میں نے اس سے کہا کہ تم اپنا پورشن بیچ دو؛ کیونکہ بلڈنگ بیچنے پر تمہارے بھائی راضی نہیں، اس پر وہ کہتا ہے کہ تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ تم اس معاملے میں بولو۔

اب آپ بتائیں کہ جب اس گھر پر میرا کوئی حق نہیں تو میں کس طرح اس میں رہوں؟ میں کیا کروں؟ جب میں فیصلہ نہیں کروں گی تو کون کرے گا؟

تنقیح: سائلہ کی بڑی بیٹی نے والدہ سے پوچھ کر اس سوال کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ:-

ہماری والدہ نے اپنا سونا اس بلڈنگ کے لیے اس لیے بیچا تھا کہ والد صاحب کے پاس پیسے کم پڑ رہے تھے، اس وقت شوہر کو گفٹ کرنے یا قرض دینے کی کوئی خاص نیت نہیں تھی، بس مقصد یہ تھا کہ بچوں کے لیے گھر ہوجائے۔

اس وقت عملاً بلڈنگ کی صورتِ حال یہ ہے کہ زمینی منزل کے دونوں پورشن ہماری والدہ نے کرایہ پر دئیے ہیں۔ دوسری منزل میں دو پورشن نہیں، وہ ایک ہی ہے، اس میں میری والدہ اپنے تیسرے نمبر بیٹے کے ساتھ رہ ہی ہیں۔ دوسری منزل کے ایک پورشن میں ایک بھائی رہتا ہے، جبکہ دوسرا پورشن کرایہ پر دیا ہوا ہے، اسی طرح تیسری منزل کے ایک پورشن میں ایک بھائی رہتا ہے، جبکہ دوسرا پورشن کرایہ پر دیا ہوا ہے۔    

پہلی منزل پر ہمارے والد، والدہ اور تینوں بھائی رہتے تھے، جب بڑے بھائی کی شادی ہوئی تو اس کو اوپر کی ایک منزل میں بھیج دیا، دوسرے کی شادی ہوئی تو اس کو دوسری منزل میں بھیج دیا، جبکہ پہلی منزل پر والدین تیسرے بیٹے کے ساتھ رہتے رہے۔ والد صاحب نے کہا کہ یہ بلڈنگ آپ لوگوں کی ہی ہے، لیکن جب تک میں اور میری اہلیہ زندہ ہیں تو ہمارے خرچ کا بھی انتظام ہونا چاہیے، اس لیے انہوں نے اوپر کی دونوں منزلوں میں بیچ میں دیوار کھڑی کر کے ان کے دو دو پورشن بنا دئیے، ایک ایک پورشن میں ایک ایک بیٹے کو بسایا، جبکہ ایک ایک پورشن کرایہ پر دیا۔ جب ہمارے والد نے یہ بات کی تھی کہ یہ بلڈنگ آپ لوگوں کی ہی ہے، اس وقت پوری بلڈنگ کا قبضہ اور اختیار اسی کے پاس تھا، چنانچہ اس کے بعد ہی انہوں نے اوپر کی دونوں منزلوں میں دیوار بنا کر ان کا ایک ایک حصہ کرایہ پر دیا اور اپنی زندگی میں ان کا کرایہ وہ خود لیتے تھے، ان کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق کرایہ ہماری والدہ لیتی ہے، جس کی تفصیل اوپر آگئی ہے۔ زمینی منزل سے متعلق والد صاحب نے کہا تھا کہ یہ دونوں بیٹیوں کا ہے، لیکن جب تک میں اور میری بیوی زندہ ہیں، ان کا کرایہ بھی ہمارے پاس آئے گا، اس کے بعد پھر یہ منزل دونوں بیٹیاں لے لیں گی۔  

والد صاحب کے انتقال کے وقت ان کے والدین، دادا، دادی اور نانی میں سے کوئی زندہ نہیں تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ تفصیل اور تنقیح کے مطابق آپ کے والد صاحب کا اپنے دو بیٹوں کو ان کی شادی کے بعد اوپر کی دو منزلوں میں الگ الگ رہائش دینے، ایک بیٹے کو اپنے ساتھ رکھنے اور زبانی طور پر سب بچوں میں ان چاروں منزلوں کی تقسیم سے اس بلڈنگ کی ملکیت آپ بہن بھائیوں کی طرف منتقل نہیں ہوئی، بلکہ یہ پوری بلڈنگ آپ کے والد صاحب کی وفات تک انہی کی ملکیت تھی، وہ آخر وقت تک اس میں مالکانہ تصرفات (اوپر کی دو منزلوں میں دیوار بنا کر ان کا ایک ایک حصہ کرایہ پر دینا اور کرایہ خود وصول کرنا) کرتے رہے، اس لیے ان کی وفات کے بعد یہ پوری بلڈنگ ان کی میراث میں شامل ہوگی اور ان کے تمام ورثا میں اپنے اپنے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔ لہٰذا آپ کے بیٹے کا یہ کہنا درست نہیں کہ آپ کا اس بلڈنگ میں کوئی حق نہیں۔ ورثا میں تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ اس بلڈنگ کے کل چونسٹھ (64) حصے کر کے آپ کی والدہ کو آٹھ (8) حصے، تین بھائیوں میں سے ہر ایک کو چودہ، چودہ (14، 14) حصے اور آپ دو بہنوں میں سے ہر ایک کو سات، سات (7، 7) حصے دئیے جائیں گے۔

اس تفصیل سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ جو بیٹا پوری بلڈنگ کو بیچنے کا مطالبہ کر رہا ہے، ضروری نہیں کہ اس کے حصے میں ایک پوری منزل آئے۔ لہٰذا اگر کوئی وارث اپنا حصہ بیچنا چاہے تو وہ مذکورہ بالا تقسیم کے مطابق اپنا حصہ بیچ سکتا ہے، لیکن وہ باقی ورثا کو ان کے حصے بھی بیچنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ اگر وہ اپنا حصہ بیچتا ہے تو اس کو خریدنے کے اولین حق دار بھی باقی ورثا ہوں گے جو اس کے ساتھ اس بلڈنگ میں شریک ہیں، ہاں اگر ان میں سے کوئی بھی اس کا حصہ نہ خریدنا چاہے تو پھر وہ باہر کے کسی بندے کو بھی اپنا حصہ بیچ سکتا ہے۔ 

جب تک یہ بلڈنگ تقسیم نہیں ہوتی تو جن حصوں کو کرایہ پردیا ہوا ہے، ان کا کرایہ بھی اسی حساب سے تمام ورثا میں تقسیم ہوگا، البتہ اگر کوئی بیٹا یا بیٹی اپنے حصے کا کرایہ والدہ کو دینا چاہے تو یہ بہت بڑے اجر و ثواب کا باعث ہے، لیکن وہ اس وجہ سے سارا کرایہ نہیں لے سکتی کہ میرے شوہر نے یہ وصیت کی تھی؛ اس وصیت کا شرعا کوئی اعتبار نہیں۔ اگر والدہ کے حصے کا کرایہ ان کے ضروری اخراجات کے لیے کافی نہ ہو اور ان کے پاس اور کوئی مال یا ذریعۂ آمدن بھی نہ ہو تو ان کا خرچہ شرعا بیٹوں پر لازم ہوگا، جس کی تفصیل بوقتِ ضرورت معلوم کی جاسکتی ہے۔

حوالہ جات
۔

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

         04/ذو الحجۃ/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے