84097 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | ملازمت کے احکام |
سوال
میں نے نومبر 2021ء میں ایک امریکن کمپنی Tekyard کی Daughter کمپنی Zantek جوائن کی۔ Tekyard میڈیکل کے متعلق سامان کی خرید و فروخت کرتی ہے اور اس کی Daughter کمپنی Zantek دو طرح کے سامان سے متعلق کام کرتی ہے، ایک میڈیکل اور دوسرا Scientific Equipment ۔ کمپنی دونوں کو الگ الگ ڈیل کرتی تھی اور امریکہ میں یہ دونوں الگ طرح سے ڈیل کیے جاتے ہیں۔ میری ہائرنگ کمپنی کے سائنٹیفک (Scientific) والے پروجیکٹ میں ہوئی تھی، جس کی ڈومین Zantek Scientific کے نام سے تھی۔ میں نے دو سال اسی پروجیکٹ پر کام کیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ میڈیکل میں بھی خرید و فروخت کرتا رہا۔
جنوری 2022ء میں میں نے کمپنی کے ساتھ Employment Contract پر دستخط کیے ، جو پی ڈی ایف میں بھیج رہا ہوں۔ اس معاہدے کی شق نمبر 14 کے مطابق کمپنی میں کام کرتے ہوئے اور کمپنی کے ساتھ معاہدہ ختم ہونے کے بعد ایک (1) سال تک ملازم وہ کام نہیں کر سکتا جو یہ کمپنی کر رہی ہو۔
اکتوبر 2023ء میں ہماری کمپنی کوAA Medical نامی کمپنی نے خریدا، جس کی وجہ سے Zantek Scientific کو روک دیا گیا، اس سے میری سیلری پر بہت اثر پڑا، میری مہارت اسی equipment میں تھی۔ ہمارے سابقہ مالک (جو کمپنی بیچنے کے بعد اس میں بطورِ ملازم اور نگرام کام کر رہے ہیں) کا کہنا تھا کہ AA Medical نے صرف ہمارا میڈیکل والا بزنس خریدا ہے،Zantek Scientific ہم عارضی طور پر بند کر رہے ہیں اور سال، دو سال بعد دوبارہ شروع کریں گے۔ لیکن ٹیم لیڈر نے کہا کہ اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں، وہ سائنٹیفک پروجیکٹ کو جاری نہیں رکھنا چاہتے، لہٰذا تم صرف میڈیکل پر فوکس کرو۔
اس لیے کمپنی کی transition (مالکان تبدیل ہونے) کے بعد مجھے مجبورا Medical Equipment پر کام کرنا پڑا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی میں نے کمپنی سے ہٹ کر ایک کلائنٹ کو Scientific Equipment کی فروخت کا کام شروع کیا، جس کے ساتھ میں کمپنی میں رہ کر کام کرتا تھا۔ پروجیکٹ بند ہونے کی صورت میں کلائنٹ کو ایک ٹیم دی جو اس کے ساتھ کام کرتی تھی اور مجھے معاوضہ ملتا تھا۔ میں نے الگ سے اس کام کو اس لیے جاری رکھا کہ کمپنی نے اس پروجیکٹ کو بند کر دیا تھا اور میں کمپنی کے وسائل (resources) استعمال نہیں کرتا تھا، نہ ہی ملازمت کے دوران اپنا وقت اپنے ذاتی کام کو دے رہا تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں استعفا دے کر پورا وقت اپنے کام کو دوں۔
جنوری 2024 میں میرے مینیجر اور ٹیم لیڈر نے بھی ارادہ کیا کہ ہم Zantek (جس کی مالک اس وقتAA Medical نامی کمپنی بن گئی تھی) میں ملازمت کے ساتھ ساتھ Scientific Equipment کا کام خود سے شروع کرتے ہیں، میں بھی راضی ہوا؛ کیونکہ اس میں ٹیم کے ساتھ بہتر طریقے سے کام ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ہم نے کمپنی رجسٹر کروائی، دو ماہ کام کیا اور معاوضہ بھی حاصل کیا، لیکن وہ کمپنی اس ڈر سے بند کرنا پڑی کہ ہم اپنے جس پارٹنر کے نام پر بزنس کر رہے تھے، وہ مستقبل میں کہیں کمپنی پر قبضہ نہ کر لے۔ وہ بند کر کے دوسری کمپنی رجسٹر کروانے کا سوچا، پارٹنر شپ کی بات چیت ہوئی، نفع کے تناسب (Profit percentage) کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ میں نے اپنےمینیجر اور ٹیم لیڈر سے استعفا دے کر اپنے بل بوتے پر کام کرنے کا کہا، چنانچہ میں نے استعفا دے دیا۔
میرے استعفا دینے کے بعد میرے اس مینیجر اور ٹیم لیڈر نے کمپنی کے نگران (Boss) سے بات کی اور جو پروجیکٹ اکتوبر 2023ء میں بند کیا تھا، وہ جاری کر کے Scientific Equipment کی خرید و فروخت دوبارہ شروع کر دی۔ اس کی وجہ یہ بتائی کہ یہ بھی میڈیکل میں ہی استعمال ہوتا ہے تو یہ علیحدہ نہیں ہو سکتا۔ کمپنی کا یہ نگران Zantek کا سابقہ مالک ہے، جو AA Medicalنامی کمپنی کے مالک بن جانے کے بعد ملازم کے طور پر کام کر رہا ہے۔ اب انہوں نے Scientific Equipment کی دوبارہ خرید و فروخت AA Medicalنامی کمپنی کے تحت شروع کی ہے، یعنی اب میڈیکل کے علاوہ Scientific Equipment کی مالک بھی AA Medical نامی کمپنی ہے اور کام Zantek Scientific کے نام اور عنوان سے ہی ہورہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہماری ٹیم (جس میں میں، میرے مینیجر اور ٹیم لیڈر شامل تھے) جو اپنا کام کرنا چاہتی تھی، وہ بند کر دیا۔
میں اب اپنے طور پر Scientific Equipment کا یہ کام کرنا چاہتا ہوں، لیکن Zantek Scientific کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد مجھے تشویش ہے کہ شرعا ایسا کرنا کیسا ہے؟ میں نے استعفا بھی دے دیا ہے اور میرے پاس کوئی اور اچھی جاب کا موقع بھی نہیں۔
ایک اور بات شامل کرنا چاہوں گا کہ جنوری 2024ء میں جب ہم اپنا کام شروع کر رہے تھے تو ہمارے اس ٹیم لیڈر نے ہمیں کہا تھا کہ نگران Boss))سے میں نے بات کرلی ہے، انہوں نے بتایا کہ اب ہم یہ بزنس نہیں کر رہے ہیں اور مالکان بھی تبدیل ہوچکے ہیں، اس لیے اب Employment Contract کی پاس داری کی ضرورت نہیں اور ہم اپنا کام کر سکتے ہیں۔ اسی بنیاد پر ہم سب نے مل کر کام شروع کیا تھا جو دو ماہ جاری رہا۔ چنانچہ اسی بنیاد پر میں نے کمپنی سے استعفا دیا۔ میں نے استعفا 15 اپریل 2024ء کو دیا ہے۔
اس ساری تفصیل کے بعد میرا سوال یہ ہے کہ اب اسEmployment Contract کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا میں اب بھی اس معاہدے کا پابند ہوں ؟ مندرجہ بالا کارگزاری میری پوزیشن کیا بنتی ہے؟ کیا میں استعفا دینے کے بعد وہی کام کر سکتا ہوں جو یہ کمپنی بھی کر رہی ہے؟ ٹیم لیڈر اب کہتا ہے کہEmployment Contract برقرار (Valid) ہے اور میں کمپنی سے ملتا جلتا کسی طرح کا کام نہیں کر سکتا، حالانکہ انہوں نے خود ہی کہاتھا کہ نگران (Boss) نے اجازت دی ہوئی ہے۔ کیا یہ درست ہے کہ معاہدہ ابھی بھی برقرار ہے؟ اس صورت میں میں کیا کر سکتا ہوں ؟ کیونکہ میں نے استعفا اسی لیے دیا تھا کہ میں اپنا کام کر سکوں اور یہ کہ Employment Contract اب مجھے پابند نہیں کرتا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ملازمت کے معاہدے میں یہ شرط لگانا کہ ملازم کمپنی چھوڑنے کے بعد ایک مخصوص مدت مثلا ایک سال تک اسی کمپنی والا کام شروع نہیں کرے گا، فی نفسہ جائز ہے؛ کیونکہ اس میں کسی شرعی اصول کی خلاف ورزی لازم نہیں آتی اور یہ شرط اس زمانے کے عرف میں رائج ہے؛ اس لیے معاہدے کی پاسداری سے متعلق نصوص اور حدیث شریف "المسلمون عند شروطهم" کی رو سے اس شرط کی پاس داری ملازم پر لازم ہوگی۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق جب AA Medical نامی کمپنی نے آپ کی کمپنی کو خریدا اور انہوں نے آپ کو سابقہ معاہدہ کے تحت ملازمت پر برقرار رکھا تو آپ حسبِ سابق اس معاہدے کے پابند تھے، مالکان تبدیل ہونے اور ان کا فوری طور پر Scientific Equipment کا کام جاری نہ رکھنے کی وجہ سے وہ معاہدہ یا اس کی کوئی شق ختم نہیں ہوئی تھی۔ آپ کے ٹیم لیڈر یا ان کے بقول نگران (سابقہ مالک) کی زبانی کلامی معاہدے کو ختم قرار دینے کا کوئی اعتبار نہیں۔ لہٰذا اب آپ استعفا دینے کے بعد سے ایک سال تک Scientific Equipment اور میڈیکل دونوں کام شروع نہیں کرسکتے۔ البتہ اگر آپ کے ٹیم لیڈر نے جانتے بوجھتے اس معاہدے کے برقرار رہنے یا نہ رہنے کے حوالے سے آپ کی غلط راہنمائی کی ہے تو اس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوں گے، جس کی تلافی کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اب وہ آپ کو دوبارہ اس کمپنی کے Scientific Equipment کے کام میں ملازمت دلانے کی سنجیدہ کوشش کرے، اس سے ان شاء اللہ آپ کی مشکل بھی حل ہوجائے گی۔
حوالہ جات
القرآن الکریم:
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ } [المائدة: 1].
أحكام القرآن للجصاص (3/ 282):
قوله تعالى "يا أيها الذين آمنوا أوفوا بالعقود"……..روي عن جابر في قوله أوفوا بالعقود قال هي عقدة النكاح والبيع والحلف والعهد وزاد زيد بن أسلم من قبله وعقد الشركة وعقد اليمين وروى وكيع عن موسى بن عبيدة عن أخيه عبدالله بن عبيدة قال العقود ستة عقد الأيمان وعقد النكاح وعقدة العهد وعقدة الشرى والبيع وعقدة الحلف.
قال أبو بكر: العقد ما يعقده العاقد على أمر يفعله هو أو يعقد على غيره فعله على وجه إلزامه إياه؛ لأن العقد إذا كان في أصل اللغة الشد، ثم نقل إلى الأيمان والعقود عقود المبايعات ونحوها، فإنما أريد به إلزام الوفاء بما ذكره وإيجابه عليه، وهذا إنما يتناول منه ما كان منتظرا مراعى في المستقبل من الأوقات، فيسمى البيع والنكاح والإجارة وسائر عقود المعاوضات عقودا؛ لأن كل واحد منهما قد ألزم نفسه التمام عليه والوفاء به، وسمي اليمين على المستقبل عقدا؛ لأن الحالف قد ألزم نفسه الوفاء بما حلف عليه من فعل أو ترك، والشركة والمضاربة ونحوها تسمى أيضا عقودا لما وصفنا من اقتضائه الوفاء بما شرطه على كل واحد من الربح والعمل لصاحبه وألزمه نفسه، وكذلك العهد والأمان؛ لأن معطيها قد ألزم نفسه الوفاء بها، وكذلك كل شرط شرطه إنسان على نفسه في شيء يفعله في المستقبل فهو عقد.
سنن أبي داود (5/ 446):
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الصلح جائز بين المسلمين -زاد أحمد- إلا صلحا أحل حراما أو حرم حلالا". وزاد سلیمان بن داود: وقال رسول الله صلی الله علیه وسلم: "المسلمون علی شروطهم".
عمدة القاري (20/ 188):
وذهب القاسم بن محمد ويزيد بن قسيط ويحيى بن سعيد الأنصاري والليث بن سعد ومالك إلى أن العمري جائزة، ولكنها ترجع إلى الذي أعمرها. واحتجوا في ذلك بقوله "المسلمون عند شروطهم"، أخرجه الطحاوي وأبو داود من حديث أبي هريرة. وأجاب عنه الطحاوي بأن هذا على الشروط التي قد أباح الكتاب اشتراطها وجاءت بها السنة وأجمع عليها المسلمون، وما نهى عنه الكتاب ونهت عنه السنة فهو غير داخل في ذلك، ألا ترى أن رسول الله قال في حديث بريرة: كل شرط ليس في كتاب الله تعالى فهو باطل وإن كان مائة شرط.
بدائع الصنائع (5/ 259):
وروي عن النبي عليه الصلاة والسلام أنه قال: المسلمون عند شروطهم، فظاهره يقتضي لزوم الوفاء بكل شرط، إلا ما خص بدليل؛ لأنه يقتضى أن يكون كل مسلم عند شرطه، وإنما يكون كذلك إذا لزمه الوفاء به.
الدر المختار (5/ 681):
( ولو أعار أرضا للبناء والغرس صح ) للعلم بالمنفعة ( وله أن يرجع متى شاء ) لما تقرر أنها غير لازمة ( ويكلفه قلعهما إلا إذا كان فيه مضرة بالأرض فيتركان بالقيمة مقلوعين ) لئلا تتلف أرضه ( وإن وقت ) العارية ( فرجع قبله ) كلفه قلعهما ( وضمن ) المعير للمستعير ( ما نقص ) البناء والغرس ( بالقلع ). بأن يقوم قائما إلى المدة المضروبة وتعتبر القيمة يوم الاسترداد، بحر.
تکملة رد المحتار (8/ 398):
قوله ( فرجع قبله ) يكره الرجوع للخلف بالوعد؛ لقوله "المسلمون عند شروطهم"، إتقاني. وقيد بقوله "قبله"؛ لأنه لو مضى الوقت فصاحب الوقت يقلع الأشجار والبناء ولا يضمن شيئا عندنا، إلا أن يضر القلع بالأرض، فيتملك البناء والغرس بالضمان، ويعتبر في الضمان قيمته مقلوعا، هندية عن المحيط.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
04/ذو الحجۃ/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |