84134 | سود اور جوے کے مسائل | سود اورجوا کے متفرق احکام |
سوال
گذشتہ دنوں مولانا طارق جمیل صاحب کا ایک کلپ وائرل ہوا ہے،جس میں انہوں نے درج ذیل گفتگو فرمائی ہے:-
"سود دینے سے کام حرام نہیں ہوتا ،سودلینے سےحرام ہوتا ہے،سود دینا بھی گناہ ہےاور سود لینا بھی گناہ ہے،لیکن کام حرام ہوجائے،کام غلط ہوجائے ،وہ سودلینے سے ہوتا ہے،دینے سے نہیں ہوتا،دینے کا جرم اپنی جگہ پر موجود ہے"۔
کیا مولانا کی یہ بات شرعاً درست ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ سود کا لین دین شریعت مطہرہ کی نظر میں انتہائی قبیح اور گھناؤنا جرم ہے،قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں سود ی لین دین کرنے والوں کے لیے شدید ترین وعیدیں بیان کی گئی ہیں ،سودی لین دین کرنے والوں کے خلاف اللہ تعالیٰ نےاعلان جنگ کیا ہے،نیز احادیثِ مبارکہ میں بڑی صراحت کےساتھ سود لینے والے کے ساتھ سود دینے والے پر بھی لعنت کی گئی ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت کی ہے، اور فرمایا: (گناہ میں) یہ سب برابر ہیں۔ اسی طرح جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے، سود دینے والے، اس کے دونوں گواہوں اور اس کے لکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔رہی بات مولانا طارق جمیل صاحب دامت برکاتہم کے مذکورہ کلپ میں کی گئی گفتگو کی تو ہمارے خیال میں مولانا کی بات کا مطلب یہ ہے کہ فقہی اعتبار سے اگر ایک شخص کسی سے سود پر قرض لیتا ہے تو یہ معاملہ ناجائز اور حرام ہے،لیکن اگر کسی نے سود پر قرض لیا اور اس قرض سے حلال کاروبار کیاتو اس کاروبار سے حاصل ہونے والا نفع یا یہ کاروبار صرف اس وجہ سے حرام نہیں ہوگا کہ اس کاروبار میں لگایا گیا پیسہ سود پر لیا گیا تھا،بلکہ یہ کاروبار اور اس سے حاصل ہونے والا نفع حلال ہوگا،البتہ سود پر قرض لینے کا گناہ ہوگا،اسی طرح سود ادا کرنے کا گناہ بھی ہوگا،لہٰذا ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق مولانا کی بات درست ہے۔البتہ سود پر قرضہ لینااور دینا جائز نہیں ہے،اس سے اجتناب لازم ہے۔
حوالہ جات
سنن الترمذي (2/ 340)
حدثنا قتيبة حدثنا أبوعوانة عن سماك بن حرب ، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود، عن ابن مسعود ، قال : لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الرباوموكله وشاهديه وكاتبه . وفي الباب عن عمر وعلى وجابر . حديث عبدالله حديث حسن صحيح .
صحيح مسلم (5/ 50)
حدثنا عثمان بن ابى شيبة واسحق بن ابراهيم (واللفظ لعثمان) قال اسحق اخبرنا وقال عثمان حدثنا جرير عن مغيرة قال سأل شباك ابراهيم فحدثنا عن علقمة عن عبد الله قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله قال قلت وكاتبه وشاهديه قال انمانحدث بما سمعنا حدثنا محمد بن الصباح وزهير بن حرب وعثمان بن ابى شيبة قالوا حدثنا هشيم اخبرنا أبو الزبير عن جابر قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال هم سواء.
(إعلاء السنن،ج:۱۴،ص:۵۴۸)
وقال الحنفية يبطل الشرط لكونه منافيا للعقد، ويبقى القرض صحيحا، وقولهم بطلان الشرط لكونه منافيا للعقد فيه تصريح بأن القرض إذا كان مشروطا بالمنفعة يلزم منه انقلابه بيعا، ولذا أبطلوا الشرط حفظا للعقد عن الانقلاب، وإلا لم يكن لإبطاله معنى، ومرادهم بكون القرض صحيحا، والشرط باطلا، أن المستقرض إذا قبض الدراهم التي استقرضها بالشرط يصير دينا عليه، ولا تكون أمانة غير مضمونة، وأما إن الإقراض والاستقراض بالشرط جائز فكلا، فقد صرح في "الدر" عن "الخلاصة "القرض بالشرط حرام، والشرط لغو، وفيه أيضاّ: واعلم أن المقبوض بقرض قائد كمقبوض بیع فاسد سواء اهـ (٢٦٦:٤ و ٢٧٠)، فثبت بذلك أن القرض المشروط بالنفع كالبيع عندهم، ولذا أبطلها الشافعي ومالك عقد القرض، والحنفية أبطلوا الشرط صونا له عن معنى البیع،فافھم.
محمد حمزہ سلیمان
دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی
۲۶.ذو الحجہ۱۴۴۵ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |