021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والداپنی زندگی میں  اولادکودیناچاہےتوکیاحکم  ہے؟
84135ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

میرا نام محمدعثمان ..... ہے۔ میں پاکستان ایئر فورس میں پچیس  سال سے نوکری کررہا ہوں۔اور اب ریٹائرہورہاہوں، میں پنجاب کے شہر ملتان کارہنےوالا ہوں،میرےوالدصاحب کانام محمداخترہے،وہ ملٹری انجینیرنگ سروس (آرمی)سےریٹائرہیں۔

میرے والد صاحب میرے بھائی کے ساتھ جس گھر میں رہتےہیں وہ  ہمارا آبائی گھر ہے اور اس کا رقبہ دس (10) مرلہ ہے۔ میرےوالدصاحب اور بھائی نےمل کراس گھر کی تزیین و آرائش کروائی ہے اور اُس گھر میں رہتےہیں ۔اب جبکہ میں  ریٹائرہوکراپنےآبائی شہرملتان رہنےکاارادہ رکھتاہوں اوراسی گھرکی ایک طرف اپنا پورشن بنواکراپنےبچوں کےساتھ وہاں رہناچاہتاہوں،میرےوالدصاحب کےپاس اس گھرکےعلاوہ ساڑھے سات مرلہ کاپلاٹ ہے،یعنی کہ والدصاحب کی ملکیت  میں دس مرلےکاگھراورساڑھے سات مرلےکاپلاٹ ہے۔

میرےپاس 11 مرلہ کاایک پلاٹ ہے،لیکن یہ دونوں پلاٹ جس جگہ پرہیں وہاں ابھی آبادی نہیں ہے،اس لیےرہائش کےقابل نہیں ۔

اس صورت حال کومدنظررکھتےہوئےمیراآپ سےسوال  یہ ہےکہ میں اپناپورشن بنوانےسےپہلےتمام حقداروں کوان کاحق اداکرناچاہتاہوں،تاکہ بعدمیں دنیا وآخرت کےمسائل سےبچاجاسکے،میرےوالدصاحب کی بھی یہی مرضی ہے،آپ سےگزارش ہےکہ اس 10 مرلےکےپلاٹ (جس پرہماراآبائی گھرتعمیر ہواہے) کی تقسیم کےطریقےمیں ہماری ر اہنمائی فرمائیں ۔

وضاحت:سائل نےسوال کی وضاحت کی ہےکہ چونکہ 10 مرلےکاپلاٹ والدکی ملکیت ہے،والدصاحب تومجھےاس پرتعمیرکی اجازت دےرہےہیں،لیکن یہ بھی کہہ رہےکہ بعدمیں بہنوں کےحصےکاکیاکروگے؟اس لیےداراالافتاء سےاس کاطریقہ کارمعلوم کرلویعنی زندگی میں والداپنی اولادکودیناچاہےتوکیاطریقہ کار ہوگا؟

نوٹ:سائل نےورثہ کی تفصیل لکھی ہے،مقصودی سوال سےاس کاتعلق نہیں،لہذاسوال میں شامل نہیں کیا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والدکی ملکیت میں چاہےمکان ہو،پلاٹ ہویاکوئی اورجائیدادوغیرہ ،جب تک والدحیات ہیں ،اپنی جائیدادمیں تصرف کااختیارخودوالد کوہی ہے،اپنی اولادکوملکیتادیناچاہیں توشرعااختیارہے،اس صورت میں یہ میراث نہیں ہوگی، ہبہ شمارہوگااور جس کو دی گئی ہو،اس کی ذاتی  ملکیت ہوجائےگی،بشرطیکہ  جس کوہبہ کیاجائےاس کومکمل طورپر مالک بناکرقبضہ میں بھی دےدیاجائے(اگرزندگی میں  قبضہ مکمل  نہیں ہواتوزندگی میں یہ والدہی کی ملک شمار ہوگی اوران کی موت کےبعدمیراث ہوگی،جوشرعی حصےکےمطابق ان کےورثہ میں تقسیم  کی جائےگی)

زندگی میں تقسیم کرنے میں بہتراورمفتی بہ قول یہ ہےکہ بیٹےاوربیٹیوں کوبرابرحصہ دیاجائے،کیونکہ یہ عطیہ اورہبہ ہےاورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہےکہ"اپنی اولادکوعطیہ دینےمیں برابری کرو"اس لئےاگربرابردیاجائےتوبہترہے،لیکن اگرزندگی میں ہی ان کی میراث کےحصےکےمطابق دیاجائےتوبھی جائزہے،شرعااس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

زندگی میں  جائیدادکواس طرح تقسیم کرناکہ کسی ایک بیٹےیابیٹی کوتومکمل جائیدادیدی جائےاوردوسری طرف بعض ورثہ(مثلابیٹیاں)مکمل طورپرمحروم ہوجائیں یاان کاحصہ بہت کم رہ جائے،ایسی تقسیم شرعاجائزنہیں(اگروالدین نےاس طرح قصداتقسیم کیاتوگناہگاربھی ہوں گے)ہاں اگرکسی معقول وجہ مثلا دین داری،خدمت گزاری،دینی خدمات اورحاجتمندی وغیرہ کی وجہ سےکسی بیٹےیابیٹی کوزیادہ اورکسی کوکم دیاجائےتوشرعاگنجائش ہے۔

اس تفصیل کی روشنی میں صورت مسئولہ میں اگرآپ کےوالد آپ کی ضرورت پوری کرنےکےلیےآپ سےمکان بنانےکےسلسلےمیں تعاون کرناچاہتےہیں تواس کی بہتر صورت یہ ہےکہ وہ آپ کو اپنےپلاٹ میں جتناحصہ دیں،اس کےبرابرپلاٹ یااس کی قیمت دوسرےبھائی بہنوں کوبھی دیدیں،اگرسب کوہبہ کرنامشکل ہوتوآپ اپنےوالدکےپلاٹ کےساتھ اپنےپلاٹ کےتبادلہ  کامعاملہ بھی کرسکتےہیں،ایسےمیں سب کوحصہ دیناضروری نہ ہوگا۔

حوالہ جات
"شرح المجلۃ"1 /462:
وتتم(الھبۃ)بالقبض الکامل لأنہامن التبرعات والتبرع لایتم الابالقبض الکامل ۔
"الفتاوى الهندية "35 /  24:ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا ، وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين ، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار ، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار ، كذا في الظهيرية ۔
"البحرالرائق" 7/490 :
وفی الخلاصۃ :المختارالتسویۃ بین الذکرواالانثی فی الھبۃ ۔
  " خلاصۃ الفتاوی "  4/  40 :
وفی الفتاوی:رجل لہ ابن وبنت ارادان یھب لھما شیئافالأفضل ان یجعل للذکرمثل حظ الانثیین عندمحمدرحمہ اللہ تعالی وعندابی یوسف رحمہ اللہ تعالی بینھماسواء ھوالمختارلورودالآثار
ولووھب جمیع مالہ لابنہ جازفی القضاء وھوآثم ثم نص عن محمد رحمہ اللہ تعالی ھکذافی العیون ،ولوأعطی بعض ولدہ شیئادون البعض لزیادۃ رشدہ لاباٗس بہ وان کاناسواء لاینبغی أن یفضل ،ولوکان ولدہ فاسقافأراد أن یصرف مالہ الی وجوہ الخیرویحرمہ عن المیراث ھذاخیرمن ترکہ لان فیہ اعانۃ علی المعصیۃ ولوکان ولدہ فاسقالایعطی لہ أکثرمن قوتہ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

24/ذی الحجہ        1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے