03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گھر کےصرف کاغذات بیٹے کے نام کروانے سے ہبہ تام نہیں ہوتا
84056میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرا نام مستقیم ولد اکرام الدین ہے، میں اپنے والد کااکلوتا بیٹا ہوں اورمیرے علاوہ ان کی دو بیٹیاں ہیں،والد صاحب نے اپنی زندگی میں جائیداد میرے نام کردی تھی،مگر میرے والد نے فائل رشتہ داروں کے پاس کچھ قرض کے عوض رکھوادی تھی،اب ان رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ جائیداد مسجد میں جائے گی،یا ہم رکھیں گے،جبکہ ان کے ورثا میں ہم بہن بھائی حیات ہیں۔

جس کے پاس فائل رکھی ہے اس کا کہنا ہے کہ میں اپنے نام کرلوں یا مسجد میں دے دوں،صرف آٹھ مہینے والد صاحب کی دیکھ بھال ان رشتہ داروں نے کی ہے،ہماری ماں ہارڈپیشن کی مریض تھی،ہم ماں کی دیکھ بھال کرتے تھے،مگر جب بھی والد صاحب بیمار ہوئے میں ان کی دیکھ بھال کے لئے آیا کرتا تھا،محلے پڑوس والے اچھے تھے،جب بھی بیمار ہوتے تھے مجھے کال کرتے تھے اور میں آجایا کرتا تھا۔

میری ماں طلاق کے بعد کچھ لے کر نہیں گئی تھی،انہوں نے گھروں میں کام کرکے ہماری پرورش کی ہے،مرحوم یعنی والد کا جو بھی قرض ہے وہ بھی ہم دینے کے لئےتیار ہیں،جس کے پاس فائل ہے ان کا کہنا ہے کہ والد صاحب نے اپنی حیات میں جائیداد دوبارہ اپنے نام کرلی تھی۔

اب ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ والد صاحب کی جائیداد میں ہم تین بچوں کا حق ہے یا نہیں؟

تنقیح:سائل نے بتایا کہ جائیداد ایک مکان کی صورت میں ہے،جس کے کاغذات مرحوم والد نے اس کے نام منتقل کردیئے تھے،لیکن قبضہ نہیں دیا تھا اور کاغذات بھی اپنے پاس رکھے تھے،اس ڈر سے کہ کہیں بیٹا انہیں گھر سے نکال ہی نہ دے۔

بعض لوگوں کی جانب سے قرض کے دعوی کے حوالے سے وضاحت یہ ہے کہ سائل کے والد جوا کھیلتے تھے،جس میں وہ تقریبا تین چار لاکھ روپے ہار گئے تھے،جس کے عوض انہوں نے اس گھر کے کاغذات گروی رکھوائے تھے،پھر کچھ رشتہ داروں نے جنہوں کچھ عرصہ والد کی دیکھ بھال کی تھی والد صاحب کا قرض ادا کرکے فائل وصول کرکے اپنے پاس  رکھ لی،اب وہ لوگ اس بنیاد پر اس گھر کی ملکیت کے دعویدار ہیں کہ ہم نے ان کی دیکھ بھال اور خدمت کی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ زندگی میں اولاد میں سے کسی کو کچھ دینا ہبہ ہے اور ہبہ کی تکمیل کے لئے قبضہ شرط ہے،اس کے بغیر ہبہ مکمل نہیں ہوتا،چونکہ آپ کے والد نے گھر صرف کاغذات کی حد تک  آپ کے نام کروایا تھا،قبضہ مرتے دم تک اپنے پاس رکھا تھا،اس لئے یہ ہبہ تام نہیں ہوا اور یہ گھر ان کے ترکہ(وہ سونا،چاندی،جائیداد،یا ان کے علاوہ کوئی بھی چھوٹی بڑی چیز جو وفات کے وقت ان کی ملکیت میں تھی سب ان کا ترکہ ہے) میں شامل ہوکر ان کے ورثا کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

جو رقم آپ کے والد کی طرف سے رشتہ داروں نے ادا کی وہ رشتہ داروں کا قرضہ ہے جو ترکہ سے ان کو ادا کرنا لازم ہے،البتہ محض کسی کی دیکھ بھال کرنے سے اس کی جائیداد میں دیکھ بھال کرنے والوں کا  کوئی حق شرعا ثابت نہیں ہوتا،اس لئے ان کے ذمے لازم ہے کہ وہ اپنی رقم لے کر گھر کے کاغذات آپ کو واپس کردیں،ان کا گھر کے کاغذات کو اپنے نام پر منتقل کرنا یا مسجد کے لئےوقف کرنا جائز نہیں۔

حوالہ جات

"الدر المختار " (5/ 688):

"(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح".

"الدر المختار " (6/ 759):

 "(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها كالرهن والعبد الجاني) والمأذون المديون والمبيع المحبوس بالثمن والدار المستأجرة وإنما قدمت على التكفين لتعلقها بالمال قبل صيرورته تركة (بتجهيزه) يعم التكفين (من غير تقتير ولا تبذير)..... (ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد)".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

02/ذی الحجہ1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب