84227 | طلاق کے احکام | تحریری طلاق دینے کا بیان |
سوال
میرا نام مریم قاسم ہے اور شعبہ قانون جامعہ شرینگل میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہوں،میرے شوہر سیف اللہ محب ولد محب اللہ نے مجھے تحریری طلاق نامہ بھیجا ہے جو کہ بتاریخ 28 اگست 2023ء کو لکھا گیا اور اسی تاریخ کو بھیجا گیا ہے،جس پر بشمول دو گواہان لقمان الدین ولد جان محمد اور نعمان محب ولد محب اللہ کے دستخط موجود ہیں،میرے سمیت یہ طلاق نامہ میرے ادارے کے کئی افراد کو بھیجاگیا ہے،اس طلاق نامے میں مذکورہ بالا تاریخ پر واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ میں نے تمہیں طلاق دی،میں نے تمہیں طلاق دی،میں نے تمہیں طلاق دی۔
بار بار رابطہ کرنے پر بھی اقرار کرکے اس نے بتایا کہ ہاں میں نے ہی کاغذات بھیجے ہیں،اب دس ماہ بعد کہتا ہے کہ میں نے غصے میں یہ طلاق نامہ لکھا اور بھیجا تھا،اس لئے آپ سے مرحلہ وار درجہ ذیل امور اور دیگر متعلقہ شرعی احکام کے حوالے سے مفصل راہنمائی درکار ہے،نیز ایسی راہنمائی جسے عدالتی کاروائی کے لئے بھی پیش کیا جاسکتا ہو۔
1۔کیا اس سے طلاق واقع ہوچکی ہے؟ اگر ہاں تو کتنی اور کونسی قسم کی طلاق واقع ہوئی ہے؟
4۔طلاق کی صورت میں اب اسے اس سے رجوع کا حق حاصل ہے،جبکہ میرا واپسی کا کوئی ارادہ نہیں؟
نوٹ:طلاق نامے میں شوہر نے اس بات کا دعوی کیا ہے کہ نکاح کے کچھ عرصہ بعد بیوی کے مطالبے پر باہمی رضامندی سے دونوں نے خلع کے کاغذات پر دستخط کردیئے تھے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ مفتی غیب کا علم نہیں جانتا،وہ پوچھے گئے سوال کے مطابق جواب دیتا ہے،لہذا اگر سوال میں ذکر کی گئی تفصیل حقیقت پر مبنی نہ ہو تو مفتی کا جواب صورت مسئولہ پر منطبق نہیں ہوگا اور محض مفتی کے بتانے کی وجہ سے نہ حرام چیز حلال ہوگی اور حلال چیز حرام،اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
عام نارمل غصے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے،لہذا اگر سوال میں ذکر کی گئی تفصیل حقیقت پر مبنی ہے کہ اس سے پہلے آپ نے شوہر سے خلع نہیں لی اور شوہر نے عام نارمل غصے کی حالت میں مذکورہ طلاق نامہ آپ کو بھیجا ہے تو طلاق نامے میں مذکور الفاظ"میں نے تمہیں طلاق دی،میں نے تمہیں طلاق دی،میں نے تمہیں طلاق دی" سے آپ کو تین طلاقیں(طلاق مغلظہ) واقع ہوچکی ہیں،جن کی وجہ سے آپ شوہر پر حرمت غلیظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہیں اور اب موجودہ حالت آپ دونوں کا دوبارہ نکاح بھی ممکن نہیں ہے۔
لیکن اگر بالفرض شوہر کی بات درست ہو کہ اس سے پہلے آپ دونوں باہمی رضامندی سے خلع کے کاغذات پر دستخط کرچکے ہیں تو پھر اسی خلع کے ذریعے ایک بائن طلاق واقع ہوگئی تھی اور اس کے بعد مذکورہ طلاق نامہ اگر آپ کی عدت(حائضہ)جس عورت کو ماہواری آتی ہو) عورت کی عدت تین ماہواریاں ہیں اور جس عورت کو حیض)ماہواری) نہیں آتا اس کی عدت تین مہینے ہیں،جبکہ حاملہ عورت کی عدت بچے کی ولادت تک ہوتی ہے) گزرنے کے بعد تحریر کیا گیا ہے تو پھر اس کے ذریعے مزید طلاقیں واقع نہیں ہوئیں اور اگر عدت کے دوران تحریر کیا گیا ہو تو پھر بقیہ دو طلاقیں اس کے ذریعے واقع ہوگئیں،جبکہ طلاق نامے میں مذکور تیسری طلاق لغو ہوگی۔
نیز طلاقِ بائن کے وقوع کی صورت میں بھی شوہر کو بغیر تجدیدِ نکاح کے رجوع کا حق حاصل نہیں ہوتا،اگر شوہر رجوع کرنا چاہتا ہو تو اسے عورت کی رضامندی کی صورت میں نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کرنا پڑتا ہے۔
حوالہ جات
{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ} [البقرة: 230]
"صفوة التفاسير" (1/ 131):
"{فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} أي فإن طلق الرجل المرأة ثالث مرة فلا تحل له بعد ذلك حتى تتزوج غيره وتطلق منه، بعد أن يذوق عسيلتها وتذوق عسيلته كما صرح به الحديث الشريف، وفي ذلك زجر عن طلاق المرأة ثلاثا لمن له رغبة في زوجته لأن كل شخص ذو مروءة يكره أن يفترش امرأته آخر .
{فإن طلقها فلا جناح عليهمآ أن يتراجعآ إن ظنآ أن يقيما حدود َﷲ} أي إن طلقها الزوج الثاني فلا بأس أن تعود إلى زوجها الأول بعد انقضاء العدة إن كان ثمة دلائل تشير إلى الوفاق وحسن العشرة".
"مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ":(ج 10 / ص 240) :
"وذهب جمعور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث ومن الأدلة في ذلك ما في مصنف ابن أبى شيبة والدارقطني من حديث ابن عمر المتقدم قلت يا رسول الله أرأيت لو طلقتها ثلاثا قال إذا قد عصيت ربك بانت منك امرأتك وفي سنن أبى داود عن مجاهد قال كنت عند ابن عباس فجاءه رجل فقال أنه طلق امرأته ثلاثا قال فسكت حتى ظننت أنه رادها إليه ثم قال يطلق أحدكم فيركب الحموقة ثم يقول يا ابن عباس وإن ﷲعز وجل يقول ومن يتقﷲ يجعل له مخرجا الطلاق عصيت ربك وبانت منك امرأتك.
وفي الموطأ ما تقدم وفيه أيضا بلغه أن رجلا جاء إلى ابن مسعود فقال إني طلقت امرأتي ثماني تطليقات فقال ما قيل لك فقال قيل لي بانت منك قال صدقوا هو مثل ما يقولون وظاهره الإجماع على هذا الجواب".
"أحكام القرآن للجصاص ": (ج 2 / ص 85) :
"وقد روى سعيد بن جبير ومالك بن الحارث ومحمد بن إياس والنعمان بن أبي عياش كلهم عن ابن عباس فيمن طلق امرأته ثلاثا أنه قد عصى ربه وبانت منه امرأته".
"البحر الرائق " (3/ 257):
"ولا حاجة إلى الاشتغال بالأدلة على رد قول من أنكر وقوع الثلاث جملة لأنه مخالف للإجماع كما حكاه في المعراج ولذا قالوا: لو حكم حاكم بأن الثلاث بفم واحد واحدة لم ينفذ حكمه؛لأنه لا يسوغ فيه الاجتهاد لأنه خلاف لا اختلاف".
"الدر المختار للحصفكي ":(ج 3 / ص 253) :
"(ومحله المنكوحة) وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ".
قال ابن عابدین رحمه ﷲ:"قوله: (ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة أو عن فسخ بتفريق لاباء أحدهما عن الاسلام أو بارتداد أحدهما".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
07/محرم الحرام1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |