03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر کی جانب سے خلع کے دعوی کی صورت میں مہر کا حکم
84229دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

طلاق نامے میں مجھ پر الزام لگایا گیا ہے کہ میں نے خلع کا مطالبہ کیا تھا جو کہ سراسر خلافِ واقع اور بلا ثبوت ہے،میں نے ایسا کوئی مطالبہ قطعاً نہیں کیا تھا،کیا اب حق مہر میرا حق بنتا ہے اور میں اس کا مطالبہ کرسکتی ہوں اور کیا اس پر میرا مہر دینا لازم ہے؟

تنقیح: واضح رہے کہ رخصتی ہوچکی تھی،یہ معاملات اس کے بعد پیش آئے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

محض شوہر کی جانب سے یکطرفہ الزام کی وجہ سے آپ پر خلع ثابت نہیں ہوسکتا،جب تک شوہر اپنے اس دعوی کو شرعی شہادت(دو نیک و صالح مردوں یا انہیں صفات کی حامل دو عورتوں اور ایک مرد کی گواہی) سے ثابت نہ کردے،اگر وہ اپنے اس دعوی کو شرعی شہادت سے ثابت کردے کہ آپ نے مہر کے عوض اس سے خلع لیا تھا تو پھر اس کے ذمے مہر دینا لازم نہیں ہوگا،جبکہ اس کے پاس شرعی شہادت نہ ہونے کی صورت میں آپ کو حلفیہ بیان دینا پڑے گا کہ آپ نے اس سے مہر کے عوض خلع نہیں لیا،آپ کی جانب سے قسم اٹھانے کے بعد اس کے ذمے مہر کی ادائیگی لازم ہوگی۔

حوالہ جات

"الفتاوى الهندية" (4/ 3):

"(وأما حكمها) فاستحقاق الجواب على الخصم بنعم أو لا فإن أقر ثبت المدعى به وإن أنكر يقول القاضي للمدعي: ألك بينة فإن قال: لا، يقول لك يمينه ولو سكت المدعى عليه ولم يجبه بلا أو نعم فالقاضي يجعله منكرا حتى لو أقام المدعي البينة تسمع كذا في محيط السرخسي".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

07/محرم الحرام1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب