84242 | طلاق کے احکام | تین طلاق اور اس کے احکام |
سوال
میرا شوہر شادی سے پہلے مقروض چلا آرہا تھا ، شادی کےموقع پر بینک سے سودی قرض لیا تھا ، ہماری شادی کو سولہ سال ہوگئے ، شادی کےبعد سے میں خود ملازمت کرکے کماتی ہوں ، جس سے ان کے قرضے چکا دیئے اور گھر کے تمام اخراجات اور تین بچوں کا نفقہ بھی پورا کرتی ہوں۔ شادی کےبعد پر شوہر گھر پر بیٹھے رہتے ہیں اور اگرتھوڑا بہت کام کیا تووہ ساری کمائی سودی قرض کی ادائیگی میں چلی جاتی تھی ۔ شوہر اکثر کام کاج کےبغیر گھر میں بیٹھا رہتا ہے، لڑائی جھگڑے زیادہ ہوتےہیں۔ شوہر شکی مزاج ہے ، جمعہ کےعلاوہ نماز نہیں پڑھتے ، بچوں کی دینی اور دنیاوی تربیت میں اس کا کوئی حصہ نہیں،روزے بھی پابندی سے نہیں رکھتا، مستقل مزاجی نہیں ، قول وفعل میں بہت تضاد ہے۔
۲۰۱۲ میں لڑائی ہوئی تو کہا کہ تم آزاد ہو ، پھر کچھ عرصےبعد لڑائی ہوئی تو کہا کہ تم سے میرا کوئی تعلق نہیں ، پھر کچھ عرصے بعد کہا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔۲۰۱۸ میں دو دفعہ کہا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔ ۲۰۱۹ میں فتوی لیا ،جس میں کہا گیا کہ نکا ح ختم ہوچکا ہے، لہذا دوبارہ نکا ح کریں ۔ ہم نے تجدید نکا ح کی۔ جون۲۰۲۳ میں پھر لڑائی ہوئی تو شوہر نے کہا کہ اگر تم میری ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔ شوہر کے مطابق یہ جملہ اس نے ایک مرتبہ کہا تھا ،جبکہ میرے مطابق اس نے" میں تمہیں طلاق دیتا ہوں "کا جملہ" اگر "کے بغیر دو بار کہا تھا ۔ اس کے بعد ہمارے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے، کیونکہ میرے مطابق تین طلاقیں ہوچکی تھیں ۔ ہم نے فتوی لیا تو یہ جواب ملا کہ اگر شوہر قسم اٹھا لے تو طلاق نہیں ہوئی ۔ انہوں نے اٹھالی ،لیکن میر ادل مطمئن نہیں ہوا کہ وہ بات سے مکر جاتے ہیں، اس لیے اس کو جھوٹی قسم سمجھتی رہی ۔ اس کےبعد ایک دن دودفعہ کہا کہ بس تو چلی جاؤ یہاں سے، آج کےبعد اب میں چھوڑں گا تک نہیں۔ نومبر ۲۰۲۳ میں پھر لڑائی ہوئی تو شوہر نے تحریری طورپر یہ لکھ کر مجھے دیا : "گزارش یہ ہے کہ جو ن ۲۰۲۳ میں میری زوجہ سے لڑائی ہوگئی ،جس کے نتیجے میں کچھ جملےادا کیے گئے ۔جس پر فتوی لیا گیا تو فتوی کے بقول کوئی طلاق نہیں ہوئی ( اگر شوہر قسم اٹھا لے )،مگر کیونکہ میری زوجہ کو تسلی نہیں مل رہی ہے تو اپنی زوجہ کو مطمئن کرنے کےلیے میں ان کے بیان کی روشنی میں طلاق دیتا ہوں ، نیز جون ۲۰۲۳ سے لے کر نومبر ۲۰۲۳ تک عدت مکمل ہوچکی ہے لہذا وہ حلالہ کرنے میں آزاد ہے ۔"اس تحریر کے بعد اپنا پورا نام لکھا۔ حسب معمول اگلےدن اپنی تحریر سے مکر گیا ، خدا کا خوف یاد دلانےپر مان گئے،لیکن نہ معلوم کسی مفتی سے فتوی لےکر آگئے کہ یہ ہماری دوسری طلاق ہے اور ابھی تک ہمار انکاح باقی ہے( اس فتوی کو میں نے نہیں دیکھا ہے اور مطالبے کےباوجود شوہر دکھا بھی نہیں رہاہے)۔وہ اسی بات پر بضد ہے ،جبکہ میرے نزدیک ہماری طلاقیں مکمل ہوچکی ہیں ۔
اتناکچھ ہوجانےکے بعد اب میں شوہر سے بد ظن اور متنفر ہوچکی ہوں ، اس کی زبان پر ہر وقت طلاق کا لفظ ہوتا ہے اور وہ بعد میں مکر بھی جاتے ہیں ،اس لیے اب ساتھ رہنے کا دل نہیں کرتا ۔ اگر بالفرض دو طلاق تسلیم کرلی جائیں تو تیسرے طلا ق کا انتظا رکرنےسےبہتر یہ ہےکہ میں کورٹ سے یک طرفہ خلع لے لوں ۔ تیسری طلاق کا مطالبہ کیا ،لیکن وہ دینےکےلیے بالکل تیا ر نہیں، کیونکہ میں تو ان کےلیے دودھ دیتی بھینس ہوں ۔ آپ بتائیں کہ اس شوہر کا کیا کروں ،جبکہ گھر کا کرایہ ، یوٹیلیٹی بلز ، بچوں کی تعلیم ، ساز وسامان وغیرہ کے سارے اخراجات میرے اوپر ہے۔ گھر سے کمانےکےلیے نکلتی ہوں تو آتےہوئے ہزاروں اشکالات اور شکوک کا اظہار کیا جاتا ہے، جس سے سخت ذہنی اذیت ہوتی ہے۔ ایک سال میں تین مرتبہ خودکشی کی کوشش کرچکاہے، مجھے لگ رہاہےکہ یہ ذہنی مریض ہے ۔ شوہر مجھے بہت ذہنی اذیت دےرہا ہے، اس لیےمجھے ایسا لگ رہا ہےکہ میں وقت سےپہلے بوڑھی ہوتی جارہی ہوں اور ان چیزوں کےمیرےبچوں کےصحت پر بھی بہت برے اثرات مرتب ہورہےہیں ، یہ ذہنی اذیت اب ناقابل برداشت حدتک پہنچ چکی ہے، اس لیے ذہنی مریض بننے سےپہلےپہلےمیں الگ ہونا چاہ رہی ہو ں ،ورنہ کون سی عورت شادی کےسولہ سال اور تین بچے پیداہونےکےبعد علیحدگی کو پسند کرتی ہے۔تو کیا ان حالات میں میرے لیے عد الت سے یک طرفہ طورپر خلع لینا جائز ہوگا ؟
تنقیح : سائلہ نے زبانی بتایا کہ ۲۰۱۲ میں کہے ہوئے تینوں جملوں سے شوہر انکار نہیں کرتا ،بلکہ وہ کہتا ہےکہ کہے ہوں گے، لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا۔ تاہم سائلہ کو یقینی طور پر یاد ہے، البتہ یہ یاد نہیں کہ ۲۰۱۲ میں تیسری صریح طلاق دینے کےدورا ن وہ عدت میں تھی یا نہیں ۔۲۰۱۸ میں دو مرتبہ صریح طلاق دینے کا بھی شوہر اقرار کرتا ہے۔ مزید یہ کہ سائلہ کے پاس جون ۲۰۲۳ میں دی ہوئی دو طلا ق پر شرعی گواہ موجود نہیں ،البتہ اس کو یہ الفاظ یقینی طور پر یاد ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
۲۰۱۲ میں شوہر کا غصہ کی حالت میں آپ کو یہ کہنا کہ" تم آزاد ہو"سے ایک طلاق بائن(جس کاحکم یہ ہےکہ تجدید نکاح کےبغیر بیو ی شوہر کےلیےحلال نہیں ہوتی) واقع ہوگئی تھی۔شوہر کا بیوی کو حالت غصہ میں "تم سےمیراکوئی تعلق نہیں" کہنے سےطلاق بائن واقع ہوجاتی ہے،لیکن ایک طلاق بائن کےبعد دوسری طلاق بائن لغو ہے،اس لیے صورت مسئولہ میں یہ دوسری طلاق لغو ہوگئی تھی ۔طلاق بائن کےبعد اگر شوہربیوی کو دوران عدت یہ کہےکہ " میں تمہیں طلاق دیتاہوں " تو اس سے دوسری طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے ، لیکن صورت مسئولہ میں چونکہ آپ کو یہ یاد نہیں کہ یہ الفاظ عدت کے دوران کہےتھے یا اس کےبعد ، اس لیے یہ طلاق بھی لغو ہو گئی تھی ۔
۲۰۱۸ میں شوہر کا آپ کو دومرتبہ یہ کہنا کہ " میں تمہیں طلاق دیتا ہوں " لغو تھا،کیونکہ عدت مکمل ہونے کےبعد تجدید نکاح کیے بغیر طلاق لغو ہے ۔
۲۰۱۹ میں تجدید نکاح کےبعد شوہر کو دو طلاق کا اختیار تھا ، لہذاجون ۲۰۲۳ میں اگر آپ کو یقین یا غالب گمان ہے کہ شوہر نے یہ جملہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" "اگر" کےبغیر دو بار کہا تھا تو دیانۃ تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ، شوہر کی غلط بیانی یا اختلاف کا اعتبار نہیں ۔ لہذا آپ کےلیے ان کےساتھ رہنا اور ان کو اپنے اوپر قدرت دینا جائز نہیں، حلالہ کےبغیر آپ اس کےلیےحلا ل نہیں ۔ اس صورت میں اگر کسی دوسری جگہ شادی کرنے کا ارادہ ہو اور شوہر طلاق نہیں دےرہا تو آپ کورٹ سے نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر فسخ نکاح کی ڈگری حاصل کرسکتی ہے، اس کےبعد تین مکمل ماہواریاں گزرنے کے بعد دوسری جگہ شادی کر سکتی ہے۔
واضح رہے کہ ۲۰۱۲ میں پہلی طلاق واقع ہونے کےبعد سے لےکر ۲۰۱۹ تک تجدید نکاح کے بغیر باہمی تعلقات کو برقرار رکھنا حرام تھا ،لہذا اس پر اللہ تعالی کے حضور صدقِ دل سے توبہ کرنا لازمی ہے۔ جون ۲۰۲۳ میں تین طلاق مکمل ہونے کےبعد حلالہ کے بغیر آپ ان کے لیےحلال نہیں رہیں ،لہذا جون میں طلاق دینےکےبعد سے لے کر اب تک کے حرام تعلقات رکھنےپر صدقِ دل سے توبہ و استغفار لازم ہے اور آئندہ کےلیےاب بلاتاخیر علیحدگی لازمی ہے۔
حوالہ جات
القرآن الکریم ( البقرۃ : 230 ):
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ-فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 300):
ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد... ويقع بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة، والنية باطنة...
والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية.
الفتاوى الهندية (8/ 325):
ولو قال في حال مذاكرة الطلاق باينتك أو أبنتك أو أبنت منك أو لا سلطان لي عليك أو سرحتك أو وهبتك لنفسك أو خليت سبيلك أو أنت سائبة أو أنت حرة أو أنت أعلم بشأنك .فقالت : اخترت نفسي يقع الطلاق وإن قال لم أنو الطلاق لا يصدق قضاء ولو قال لها لا نكاح بيني وبينك أو قال لم يبق
بيني وبينك نكاح يقع الطلاق إذا نوى.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 306):
(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح)... ثم قال: وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 148):
الشك والاحتمال لا يوجب الحكم بالنقض، إذ اليقين لا يزول بالشك
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 283):
علم أنه حلف ولم يدر بطلاق أو غيره لغا كما لو شك أطلق أم لا. ولو شك أطلق واحدة أو أكثر بنى على الأقل.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 225):
ولو شهد عندها عدلان على الرضاع بينهما أو طلاقها ثلاثا وهو يجحد ثم ماتا أو غابا قبل الشهادة عند القاضي لا يسعها المقام معه ولا قتله به يفتى، ولا التزوج بآخر. وقيل لها التزوج ديانة شرح وهبانية.
(قوله ثم ماتا) أي الشاهدان (قوله لا يسعها المقام معه) لأن هذه شهادة لو قامت عند القاضي يثبت الرضاع فكذا إذا أقامت عندها خانية (قوله وقيل لها التزوج ديانة) أشار إلى ضعفه، لما في شرح الوهبانية عن القنية عن العلاء الترجماني أنه لا يجوز في المذهب الصحيح. اهـ. وجزم به الشارح في آخر باب الرجعة فافهم.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 251):
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله.
نعمت اللہ
دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی
08 /محرم/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | نعمت اللہ بن نورزمان | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |