03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرط پر نشنیلٹی حاصل کرنا
84243جائز و ناجائزامور کا بیانکفار کے ساتھ معاملات کا بیان

سوال

میں جرمنی میں رہتا ہوں ،جاب کے سلسلہ میں، میری خواہش ہے کہ یہاں کی نیشنلٹی حاصل کرلوں، تاکہ عمرہ  کے لیے جانے میں آسانیاں ہو ں  ،اور یہاں رہائش میں چند سہولیات فراہم ہوجا ئیں۔

لیکن چند دنوں پہلے یہ قانون درج ہوا ہے کہ نیشنلٹی حاصل کرنے کے لیے یہ بھی اقرار کرنا پڑے گا کہ اسرائیل کو حق ہے رہنے کا۔اس بنا پر کیا یہ اقرار جائز ہے ؟ اس صورت میں کیا نیشنلٹی لینا جائز ہوگا، جبکہ یہ ایک قسم کی مسلمانوں کے ساتھ بے وفائی ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 شدید مجبوری کے بغیر ، محض رہائشی سہولیات لینے اور عمرہ میں آسانی کو مد نظر رکھ کر کسی کافر ملک کی نیشنیلٹی حاصل کرنا جائز نہیں ۔ اسی طرح نیشنیلٹی کے حصول کی خاطر کسی ظلم کا ساتھ دینا اور ناجائز بات کو تسلیم کرنا پڑے تو ایسے میں بھی یہ عمل درست نہیں ہو گا ۔

چونکہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے اور فلسطینی مظلوم عوام پر بدترین وحشیانہ مظالم کی علامت ہے ، لہذا اس ریاست کو تسلیم کرنے کی شرط پر نیشنیلٹی  حاصل کرنا جائز نہیں ۔

حوالہ جات

سنن أبي داود (3/ 93):

"باب في الإقامة بأرض الشرك

حدثنا محمد بن داود بن سفيان، حدثنا يحيى بن حسان، أخبرنا سليمان بن موسى أبو داود، حدثنا جعفر بن سعد بن سمرة بن جندب، حدثني خبيب بن سليمان، عن أبيه سليمان بن سمرة، عن سمرة بن جندب، أما بعد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من جامع المشرك وسكن معه فإنه مثله

معالم السنن (2/ 271)::

"قال: أنا بريء من كل مسلم يقيم بين أظهر المشركين. قالوا: يا رسول الله! لِمَ؟ قال: لاترايا ناراهما... وقوله: لاترايا ناراهما. فيه وجوه: أحدها، معناه: لايستوي حكماهما، قاله بعض أهل العلم. وقال بعضهم: معناه أن الله قد فرق بين داري الإسلام والكفر، فلايجوز لمسلم أن يساكن الكفار في بلادهم حتى إذا أوقدوا ناراً كان منهم بحيث يراها.

قال تعالى: سورة الممتحنة:08، 09

(إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ). والتَّطبِيع مع اليهود يعني وقف قتالهم وجهادهم، وهم يقاتلوننا في الدين، وقد أخرجوا ملايين المسلمين من أرضهم فلسطين، وما زالوا يخرجون من شعب فلسطين من ديارهم، ويمنعون عودتهم

أخرجه مسلم :

عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلَّى الله عليه وسلَّم: (لأخرجنَّ اليهود والنصارى من جزيرة العرب، حتى لا أدعُ إلا مُسلماً) 2- عن أبي عبيدة بن الجرَّاح رضي الله عنه قال : آخرُ ما تكلَّم به النبيُّ صلى الله عليه وسلم: “أخرجوا يهودَ أهل الحجاز، وأهل نجران من جزيرة العرب، واعلموا أنَّ شرارَ النَّاسِ الذين اتخذوا قبورَ أنبيائهم مساجدَ”.

عبدالرحمٰن جریر

فقہ المعاملات سال دوم

08/محرام الحرام/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمدعبدالرحمن جریر بن محمد شفیق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب