03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سلیپنگ پارٹنر شپ اور بروکر کا فریقین سے کمیشن لینے کا حکم
84289شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

  زید کچھ پروڈکٹ کا  کاروبار کرتا ہے،جس میں گھی،چینی،آئل،اناج اور بیج وغیرہ شامل ہیں،ان کو ہول سیل اور سٹاک کی صورت میں سیل کرتا ہے۔ عمر  زید سے رابطہ  کرتا ہے کہ  مجھے بھی اپنے کاروبار میں شامل کرلیں ،لیکن میں کام نہیں کروں گا، بلکہ میری طرف سے صرف انویسٹمنٹ ہوگی۔زید کہتا ہےٹھیک ہے،زید اور عمرکے درمیان نفع پچاس پچاس فیصد یعنی آدھا آدھا  طے ہوجاتا ہے۔کچھ عرصہ بعد خالد کو پتہ چلتا ہے تو خالد عمر سے رابطہ کرتا ہے کہ میری بھی کچھ انویسٹمنٹ کروا دیں ،عمر راضی ہوجاتا ہے اوروہ زید سے رابطہ کرکے انویسٹمنٹ کروا دیتا ہے۔

 اب خالد سے کچھ آدمی رابطہ کرتے ہیں کہ جہاں آپ نے رقم دی ہوئی ہے، وہاں ہماری رقم بھی کاروبار کیلیے دے دیں اور ہمیں بھی کچھ فائدہ ہوتا رہے گا۔اب خالد سوچتا ہے کہ ان کی رقم انویسٹمنٹ کروانے کا مجھے بھی کچھ فائدہ ہو۔اس کےلیے خالد یہ صورت اختیار کرتا ہے کہ خالد اپنے رابطہ کرنے والوں سے یہ طے کرتا ہے کہ ٹوٹل پرافٹ کا چالیس فیصد آپ کو دوں گا اور ساٹھ فیصد( یعنی  پچاس فی صد اپنی انویسٹمنٹ کےنفع  او ردس فی صد  اپنےجاننےوالوں کےنفع میں سےلےکرکل ساٹھ فی صد  نفع وصول کرے گا،جیسا کہ تنقیح  میں یہ بات آرہی ہے۔ از مجیب) میں رکھوں گا ،کیونکہ خالدنے آگے پچاس پچاس فیصد طے کیا ہوا ہے۔خالد کے ریفرنس  سے جتنی رقم انویسٹ ہوتی ہے تو اصل کاروبار کرنے والا زید پرافٹ کے علاوہ کچھ رقم مثلاً پانچ لاکھ انویسٹمنٹ پر پانچ ہزار  سیلری کے نام سے خالد کو دیتا ہے۔یاد رہے کہ خالد کی اپنی رقم بھی انویسٹ ہے۔

معاہدہ  کے شرائط درج ذیل ہیں:

1:نقصان بقدر سرمایہ برداشت کرنا ہوگا۔

2:فریق دوم اس رقم کو جائز کاروبار میں لگانے کا پابند ہوگا، بصورت دیگر فریق دوم  ذمہ دار ہوگا اور دھوکہ کی صورت میں فریق دوم ضامن ہوگا۔

3:ماہانہ حساب ہوگا۔

4:فریق اول وفریق دوم کو یہ معاہدہ ختم کرنے کا اختیار ہوگا ،لیکن معاہدہ ختم کرنے یا کچھ رقم لینے کی صورت میں دو ماہ  یا کم از کم ایک ماہ پہلے بتانا ہوگا۔

اس  ساری صورتِ حال کے بعد درج ذیل باتیں پوچھنی ہیں:

1:خالد کاخود اس طرح کاروبار میں شرکت کرنا اوراپنے ریفرنس والے  حضرات  سے اس طرح طے کرنا اورپرافٹ لینا کیسا ہے؟

2:خالد کا ہر ماہ سیلری کے نام  پر رقم لینا کیسا ہے؟

3:اگر یہ صورتیں جائز نہیں تو اس کی جائز صورت کیا ہوگی، جس سے خالد کو بھی فائدہ ہو؟

تنقیح : سائل نے زبانی بتایا کہ پچاس پچاس فی صد نفع   کے شرحِ تناسب کا مطلب یہ ہے کہ  انویسٹر کے سرمایہ سےحاصل شدہ    نفع  زید اور انویسٹر کےدرمیان آدھا آدھا تقسیم کیا جائےگا  ۔ مزید  یہ کہ  زید انویسٹر کےسرمایہ پر حاصل شد ہ سرمایہ میں سے  پچاس فی صد نفع وصول کرتا ہے اور بقیہ پچاس فی صد خالد  کو دیتاہے ، خالد اس  میں سےدس فی  صد اپنے لیے رکھ کر بقیہ چالیس فی صد  اس کےریفرنس سے انویسٹمنٹ  کرنےوالو ں کو دیتا ہے۔ اس طرح زید نے  خالد کو کہا ہےکہ انویسٹر کو  مطمئن کرکے انویسٹمنٹ لانےپر اس کو فی صدی کمیشن( جس کو سوال میں   سیلری کا نام دیا گیا ہے ) دیا جائےگا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوالات کےجوابات ترتیب وار درج ذیل ہیں:

۱:        سوال میں مذکور شرائط کے مطابق شرکت کا معاہد ہ کرنا  جائز ہے ۔ البتہ تیسری شرط سےمتعلق   یہ تفصیل مدنظر ر ہے کہ  نفع و نقصا ن کی اصل تقسیم اس وقت کی جائےگی ،جب شرکت  کی" تنضیض حقیقی" یا "تنضیض حکمی" کی جائے گی ۔ تنضیض حقیقی کا مطلب یہ ہے کہ شرکت ختم کرتے وقت کاروبا رکےموجود اثاثو ں کو بیچ کر نقد میں  تبدیل کیا  جائے  ،مزید یہ کہ  زید کےپاس موجود  کاروبار کانقد رقم ، لوگوں کےذمہ واجب الاداء قرض اور ماہانہ تقسیم شدہ نفع  کو اس کےساتھ ملا یا جائے، اس ساری رقم سے کاروبار پر ہونے والے تما م اخراجات اور نقصانات کو منہا کیا جائے، اس کےبعد اگر نفع بچ جائے تو اس کو طے شدہ  شرح تناسب کےمطابق زید اور اس کے شرکاء  کےدرمیان نصف نصف  تقسیم کیا جائے۔ تنضیض حکمی کا مطلب یہ ہےکہ شرکت ختم کرتے وقت کاروباری اثاثوں کو بیچنےکےبجائے ان کی بازاری قیمت لگائی جائے اور اس کےساتھ نقد رقم ، واجب الادء قرض اور ماہانہ تقسیم شدہ نفع  کو ملا کراس ساری  رقم سےکاروباری اخراجات اور نقصانات کومنہا کیا جائے،اس کےبعد اگر نفع بچ جائے تواس کو طےشدہ شرح تناسب  کے مطابق تقسیم  کیا جائےاور اگر نقصان ہو تو سرمایہ کےبقدر ہر شریک  اس کو برداشت کرے۔ تنضیض حقیقی یا تنضیض حکمی سےپہلے   زید اور اس کےشرکاء باہمی رضامندی سے ماہانہ (یا جو بھی مدت طے ہو )   بنیاد پر اپنی ضروریات کےلیے پیسے لے سکتے ہیں ،لیکن  ان کا حساب رکھنا لازمی ہے  ۔

۲،۳:     اگر  آپ کے علاقے میں فریقین سے کمیشن لینے کا رواج ہو تو  خالد فریقین  سے متعین کمیشن وصول کرسکتاہے، ورنہ  جس فریق سے کمیشن لینے کا رواج ہو، صرف اس فریق  سے لےسکتا ہے ، دوسرے فریق سے نہیں ۔تاہم انویسٹر سے کمیشن لینے  کی صورت میں لازمی ہے کہ   کمیشن متعین ہو اور نفع کےساتھ  مشروط نہ ہو، کیونکہ نفع کا ملنا  یقینی نہیں۔

 نیز یہ بات  بھی بہت اہتمام  سے ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہےکہ  خالد لوگوں سے اتنی انویسٹمنٹ دلوائیں،  جتنی کہ اس کاروبار میں حقیقی طورپر  لگ سکے ، اگر لوگو ں سے انویسٹمنٹ کے نام پر  رقم جمع کی جائے  اور آگے  کاروبار میں اتنا سرمایہ لگ جانے کی صلاحیت  نہ ہو اور نتیجتا  لوگوں سے حاصل شدہ  رقوم  ہی سے کچھ حصہ  ان کو بطور نفع   دیا جاتا رہے تو یہ دھوکہ  اور حرام عمل ہوگا  ، خالد کےلیے  اس میں واسطہ بننا  جائز نہ ہوگا  اور اگر لوگوں کی رقمیں   ڈوب جائیں تو یہ ان کا ضامن  بھی ہوگا ۔

حوالہ جات

الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 9):

 وأما شركة العنان فتنعقد على الوكالة دون الكفالة، وهي أن يشترك اثنان في نوع بر أو طعام، أو يشتركان في عموم التجارات ولا يذكران الكفالة.

العناية شرح الهداية (6/ 177):

وجملة القول في ذلك أنهما إن شرطا العمل عليهما وشرطا التفاوت في الربح مع التساوي في رأس المال جاز عند علمائنا الثلاثة ويكون الربح بينهما على ما شرط وإن عمل أحدهما دون الآخر.

وأما إذا شرطا العمل على أحدهما، فإن شرطا الربح بينهما على قدر رأس مالهما جاز ويكون مال الذي لا عمل عليه بضاعة عند العامل له ربحه وعليه وضيعته، وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضا على الشرط ويكون مال الدافع عند العامل مضاربة؛ ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لا يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة لكل واحد منهما ربح ماله والوضيعة بينهما على قدر رأس مالهما أبدا.

المعاییر الشرعیۃ( معیار رقم  :12  ):

يد الشـركاء على مال الشـركةيد أمانة فلا ضمان على الشريك إلابالتعدي أو التقصير. ولا يجوز أن يشترط ضمان أي شريك لرأس مال شريك آخر.

یجب أن تتفق نسبةالخسارةمع نسبةالمساهمةفي رأس المال ولايجـوزالاتفـاق على تحمل أحد الأطراف لها أو تحميلها بنسـب مختلفة عن حصص الملكية، ، ولا مانع عند حصول الخسارة من قيام أحد الأطراف بتحملهادون اشتراط سابق.

لا يجوز توزيع الربح بين أطراف الشـركة بشـكل بعد نهائي إلا بعد حسـم المصروفـات والنفقـات والرسـوم والضرائـب والتمكـن من استردادرأس المال.

يـوزع الربح بشـكل نهائي بناء على أسـاس الثمـن الذي تم بيع الموجـودات به، وهو ما يعرف بالتنضيض الحقيقي، ويجوز أن يوزع الربـح على أسـاس التنضيـض الحكمي وهـو التقويـم للموجودات بالقيمـةالعادلـة.

يجوزتوزيع مبالغ تحت الحسـاب، قبـل التنضيض الحقيقي أو الحكمـي، على أن تتم التسـوية لاحقًامع الالتزام بـردالزيادة عن المقدارالمستحق فعلاً بعد التنضيض الحقيقي أو الحكمي .

 شرح مجلة الأحكام :

المادة (1353) - (تنفسخ الشركة بفسخ أحد الشريكين، ولكن يشترط أن يعلم الآخر بفسخه، ولا تنفسخ الشركة ما لم يعلم الآخر بفسخ الشريك).

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 548):

المادة (1460) - (يلزم أن يضيف الوكيل العقد إلى موكله في الهبة والإعارة والإيداع والرهن والإقراض والشركة والمضاربة والصلح عن إنكار، وإن لم يضفه إلى موكله فلا يصح) ... ولا يكون الوكيل كما في المعاملات التي في المادة الآتية مخيرا بين الإضافة إلى نفسه والإضافة إلى موكله. وفي هذه الصورة إذا أضيف العقد إلى الموكل كانت حقوق العقد عائدة إلى الموكل، والوكيل سفير محض .

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 559):

[ (المادة 1462) تعود حقوق العقد في الرسالة إلى المرسل ولا تتعلق بالرسول أصلا]

المادة (1462) - (تعود حقوق العقد في الرسالة إلى المرسل ولا تتعلق بالرسول أصلا) هذا إذا أضاف العقد إلى مرسله. قد وضح في شرح المادة الآنفة أن حقوق العقد راجعة للموكل في صورة إضافة الوكيل العقد إلى موكله إذ أن الوكالة تكون من قبيل الرسالة. الخلاصة، تكون الرسالة على صورتين: أولها، لما كان قد فوض الوكيل بالتصرف حين تفويضه إياه على صورة الرسالة. فالوكيل مجبر على إيفاء المعاملة على سبيل الرسالة أيضا، وقد ذكر في المادة:(1460). ثانيها، إن كان تفويضه ابتداء على طريق الوكالة وبلفظ الوكالة.لكن لما كان الوكيل قد استعمل تلك الوكالة بصورة الرسالة فقد تحققت الوكالة المذكورة في ضمن الرسالة. وتعود حقوق العقد في الصورتين إلى الموكل ويكون الوكيل سفيرا محض.

    نعمت اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

09   /محرم/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نعمت اللہ بن نورزمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب