84269 | معاشرت کے آداب و حقوق کا بیان | متفرّق مسائل |
سوال
ایک شخص کی دو بیویاں ہیں۔۔کیا صرف پہلی بیوی کا یہ حق ہے کہ شوہر اسکو اپنے گھر والوں سے ملوائے، شادی بیاہ ودیگر تقریبات میں لے کر جائے اگر وہ تقریبات دوسری بیوی کی راتوں میں بھی آرہی ہوں۔اپنے آفس کی یا دوسرے کام کی جگہوں کی تقریبات میں پہلی بیوی کو لے جائے دوسری کو نہیں اور یہ عذر دے کہ دوسری بیوی کو مدعو نہیں کیا ہے۔اسکے علاوہ شوہر یہ کہے کہ میرے لئے تمہیں اپنے گھر والوں سے ملوانا لازم نہیں اور نہ ہی کام کی جگہوں کی تقریبات میں لےجانا لازم ہے۔صرف تمہارا نان نفقہ پورا کرنا لازم ہےکیونکہ تم دوسری بیوی ہو۔شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے وضاحت فرما دیں۔
نیز کیا شوہر کیلئے یہ بات جائز ہے کہ دوسری بیوی کی رات میں پہلی بیوی سے موبائل پر میسجز پر جنسی ہیجان والی اور دوسری باتیں کرے جبکہ جس بیوی کی رات ہو وہ یہ پسند نہ کرے کیونکہ شوہر اسکو وقت نہیں دے رہا جبکہ اسکی رات میں اس سے جماع نہ کرے اور اگر وہ اس بات پر شوہر سے شکایت کرے تو شوہر دوسری بیوی کو یہ بات کہے کہ تم نے بھی تو پہلی کا حق مارا تھا شادی سے پہلے باتیں کرکے۔کیا شوہر کا دو شادیوں کے بعد دوسری کی رات میں پہلی بیوی سے باتیں کرکے برابری نہ کرنے کا یہ عذر صحیح ہے جبکہ پہلی بیوی کی رات میں شوہر دوسری سے بات نہ کرتاہو کیونکہ پہلی والی کو برا لگتا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بطور تمہید یہ بات سمجھ لیں کہ میاں بیوی کے مابین کچھ شرعی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور کچھ اخلاقی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔بیویوں کے درمیان رات گزارنے ، خرچہ و نان نفقہ ااور رہائش میں برابری واجب ہے۔ ان میں کسی قسم کی کمی کوتاہی کرنے اور کسی ایک کی طرف جھکاو کا معاملہ کرنے سے شوہر اللہ کے ہاں ظالم شمار ہوگا ۔لہذا بیویوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنا چاہیے۔
سفر یا دیگر تقریبات میں بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرنا مستحب ہے،سفر کے معاملے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی عمل رہا ہے۔اگرچہ شوہر اپنی مرضی سے کسی بھی بیوی کوسفر اور تقریبات پر لے جا سکتا ہے لیکن شوہر کو چاہیے کہ اختیاری معاملات میں جیسے تقریبات اور فیملی سے میل جول میں دونوں کے ساتھ یکسانیت کا معاملہ کرے ۔ کوئی بھی ایسا عمل جس میں بغیر کسی وجہ کے دوسرے کی طرف جھکاو ظاہر ہو اس سے اجتناب کرے۔
شرعا ہر بیوی کے ساتھ اس کی باری میں رات گزارنا واجب ہے لیکن اس دوران جماع یا تلذذ کی دوسری صورتیں اختیار کرنا مردکی کیفیت پر موقوف ہے۔لہذا کبھی کبھار جماع ترک کرنے میں حرج نہیں ۔ لیکن بلکل جماع ترک کردینا یا چار مہینے کے لمبے عرصے تک جماع نہ کرنا جائز نہیں ۔ اسی طرح ایذاء مسلم سے بچنے کے لیے اس کی اخلاقی ذمہ داری ہےکہ ایک بیوی کی رات میں دوسری بیوی کے ساتھ تلذذ اور جنسی ہیجان والی باتوں سے اجتناب کرے خصوصا اس وقت جب باری والی بیوی اس کی طرف متوجہ ہو ۔ہاں خبرگیری اور تھوڑا بہت حال احوال یا کچھ دیر کے لیے اگر میاں دوسری بیوی سے بات کرے تو اس کو نظر اندازکرنا چاہیے ۔
کوئی بھی انسان کامل نہیں ہوتا ، غلطیاں ہر کسی سے ہوتی ہیں آپ بھی اپنے معاملات پرغور کریں ان چیزوں کی اصلاح کریں جو آپ اور آپ کے شوہر کے بیچ شکایات کا سبب بنتے ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے کو پیار سے سمجھائیں ،بات بات پر شکایات سے گریز کریں ۔ اور اپنے عمل سے ان پر اپنی وفاداری ظاہر کریں اور صلوۃ الحاجۃ پڑھ کر اللہ کے حضور کثرت سے اپنے تعلقات کی بہتری کی دعائیں کریں ۔
حوالہ جات
«سنن الترمذي» (2/ 434):
1141 - حدثنا محمد بن بشار، قال: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، قال: حدثنا همام ، عن قتادة ، عن النضر بن أنس ، عن بشير بن نهيك ، عن أبي هريرة ؛ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا كان عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما» جاء يوم القيامة وشقه ساقط۔
الموسوعة الفقهية الكويتية (33/ 199):
فذهب الحنفية والمالكية في الجملة إلى أن للزوج السفر بمن شاء من زوجاته دون قرعة أو رضا سائر الزوجات، لكن لكل منهم تفصيلا: فقال الحنفية: لا حق للزوجات في القسم حالة السفر، فيسافر الزوج بمن شاء منهن.
والأولى أن يقرع بينهن فيسافر بمن خرجت قرعتها، تطييبا لقلوبهن؛ ولأنه قد يثق بإحدى الزوجات في السفر وبالأخرى في الحضر والقرار في المنزل لحفظ الأمتعة أو لخوف الفتنة، وقد يمنع من سفر إحداهن كثرة سمنها مثلا، فتعيين من يخاف صحبتها في السفر للسفر لخروج قرعتها إلزام للضرر الشديد وهو مندفع بالنافي للحرج۔
حاشية ابن عابدين ،رد المحتار (3/ 201):
(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب۔
(قوله لا في المجامعة) لأنها تبتنى على النشاط، ولا خلاف فيه. قال بعض أهل العلم: إن تركه لعدم الداعية والانتشار عذر، وإن تركه مع الداعية إليه لكن داعيته إلى الضرة أقوى فهو مما يدخل تحت قدرته فتح وكأنه مذهب الغير، ولذا لم يذكره في البحر والنهر تأمل (قوله بل يستحب) أي ما ذكر من المجامعة ح. أما المحبة فهي ميل القلب وهو لا يملك. قال في الفتح: والمستحب أن يسوي بينهن في جميع الاستمتاعات من الوطء والقبلة۔۔۔۔ قال في الفتح: واعلم أن ترك جماعها مطلقا لا يحل له، صرح أصحابنا بأن جماعها أحيانا واجب ديانة، لكن لا يدخل تحت القضاء والإلزام إلا الوطأة الأولى ولم يقدروا فيه مدة.ويجب أن لا يبلغ به مدة الإيلاء إلا برضاها وطيب نفسها به
محمد سعد ذاكر
دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی
08 /محرم الحرام /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |