84244 | حج کے احکام ومسائل | کن لوگوں پر حج فرض ہے؟ |
سوال
ایک آدمی پر حج فرض نہیں تھا، اس نے کچھ اپنی اور کچھ ادھار رقم لے کر حج کی درخواست جمع کرادی، لیکن حکومت نے کسی وجہ سے حج کے نام نکالنے میں کافی دیر کردی، اس شخص کو والدین کی کسی خدمت میں رقم کی ضرورت پڑگئی، اس نے حج کی رقم بینک سے نکلوا کر والدین کی خدمت میں خرچ کردی۔ سوال یہ ہے کہ اب اس شخص پر حج فرض رہے گا یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
حج اس شخص پر فرض ہوتا ہے جس کے پاس اپنی حاجاتِ اصلیہ، واپسی تک اہل و عیال کے نان نفقہ اور قرضوں کے علاوہ اتنا مال ہو جس سے وہ سفرِ حج کے اخراجات کا انتظام کرسکے۔ صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کے پاس قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد اتنی رقم نہیں بچتی تھی جس سے وہ حج کر سکتا تو صرف درخواست جمع کرانے کی وجہ سے اس پر حج فرض نہیں ہوا تھا، لہٰذا حج پر نہ جانے کی وجہ سے اب اس کے ذمے حج کا فریضہ باقی نہیں۔
حوالہ جات
غنیة الناسك (37-36):
معنی القدر علی زاد و راحلة ملك مال یبلغه إلی مکة، بل إلی عرفة ذاهبًا و جائیًا راکبًا فی جمیع السفر بثمن المثل أو أجرة المثل بنفقة وسط لا إسراف فیها و لا تقتیر……….. فاضلًا عن حوائجه الأصلیة المذکورة في الزکاة، کمسکنه وعبید خدمته وفرسه المحتاج إلی رکوبه ولو أحیانًا……… وعن نفقة عیاله من تلزمه نفقته، وهی الطعام والکسوة والسکنی…… إلی حین عوده………. وعن قضاء دیونه حالة أو مؤجلة، والمراد دیون العباد؛ لأن الحج یقدم علی الزکاة، کما سیأتي، وأصدقة نسائه ولو مؤجلة، هذا هو حد الغنی للحج في ظاهر الروایة.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
10/محرم الحرام/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |