03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سنی لڑکی کا شیعہ لڑکے سے نکاح کا حکم
84312نکاح کا بیانمشرکین اور کفار کے نکاح کا بیان

سوال

میں ایک سنی دیوبندی خاندان سے تعلق رکھتی ہوں اور یک شیعہ جعفری لڑکے کو پسند کرتی ہوں جو مجھ سے حلال طریقے سے شادی کرنا چاہتا ہے،میرے والدین راضی نہیں،کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ وہ کافر ہے،اگر فتوی میں گنجائش یا اجازت مل جائے تو وہ مان جائیں گے،لڑکا اور اس کی فیملی شیعہ ہے،لیکن میں انہیں بذاتِ خود جانتی ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ ہمارے عقیدے کافی ملتے جلتے ہیں،سوائے اس کے کہ فرقے مختلف ہیں۔

وہ لوگ ماتم،متعہ یا کسی بھی قسم کی بدعات میں شریک نہیں ہوتے اور ان سب کاموں کو غلط سمجھتے ہیں،کیونکہ قرآن کی رو سے سب منع ہے،ان کے عقیدے بھی ہمارے جیسے ہیں کہ کلمہ پڑھنے سے انسان مسلمان ہوجاتا ہے اور اس کلمہ میں اضافہ کرنے سے شرک کا مرتکب ہوتا ہے۔

وہ حضرت علی کو مولا علی یا اللہ کا رتبہ نہیں دیتے اور پیارے نبی کے تمام صحابہ سے پیار کرتے ہیں،نہ دل میں نفرت کے چھپے جذبات رکھتے ہیں،نہ وہ ایسا کوئی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے قرآن لانے میں کوئی غلطی ہوئی ہے،یا یہ قرآن نامکمل ہے اور نہ وہ نبی علیہ السلام کے بعد کسی اور نبی کے نبوت کے قائل ہیں۔

البتہ چھوٹی موٹی بدعات کے مرتکب ہوتے ہیں،لیکن اس بات سے واقف ہیں کہ یہ اضافی باتیں ہیں،اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں،وہ صرف نام کے معمولی شیعہ ہیں،مجلس ان کی ایسی ہوتی ہے جیسے کوئی درس یا جمعہ کا خطبہ، جس میں صحابہ کے بارے میں کوئی بغض نہیں ہوتا،بلکہ صرف قرآن وحدیث کا مطالعہ ہوتا ہے۔

مجھے ایسا لگتا ہے کہ ایک سنی لڑکے سے شادی کرنے سےجس کے دین کا کچھ پتہ نہ ہو،صوم و صلاة کا پابند نہ ہو، بہتر ہے کہ ایک جانے پہچانے شخص سے نکاح کیا جائے جو سنی تو نہ ہو،مگر اللہ سے قریب ہو اور نیک صفت انسان ہو،مزید یہ کہ ہم تو کوئی نہیں ہوتے کسی کو مسلمان یا کافر بنانے والے،اگر وہ اسلام کے دائرے میں ہو اور ایک اللہ کو مانتا ہو،یہ فرقے تو ہمارے خود کے بنائے ہوئے ہیں،اگر کوئی نام کا شیعہ ہے تو وہ کافر ہے،چاہے وہ ماتم کرے یا نہ کرے،متعہ کرے یا نہ کرے،میرے خیال سے ہم جیسے لوگوں کے لئے یہ مناسب نہیں جو کبھی نماز پڑھتے ہیں،کبھی نہیں۔

اس تمہید کے بعد میرا سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کی رو سے میرے لئے اس بات کی گنجائش ہے کہ میں ایک شیعہ لڑکے سے حلال طریقے سے نکاح کرلوں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدائی کا قائل ہو،یا قرآن کو تحریف شدہ سمجھتا ہو،یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی صحابیت کا منکر ہو،یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پر تہمت لگاتا ہو،یاحضرت جبرئیل علیہ السلام کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی پہنچانے میں غلطی کا قائل ہو ایسا شخص کافر ہے،اس سے نکاح ممکن نہیں ہے۔

اگرچہ آپ نے سوال میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ یہ شخص جس سے آپ نکاح کرنا چاہتی ہے مذکورہ بالا کفریہ عقائد سے براءت کا اظہار کرتا ہے،صرف عملی بدعات کا مرتکب ہوتا ہے،لیکن اس کے باوجود نکاح جیسے اہم معاملے میں احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ آپ کسی ایسے شخص سے رشتہ کریں جس کا تعلق صحیح العقیدہ فیملی سے ہو،کیونکہ ایسے لوگ عموماً اپنے اصل کفریہ عقائد کے حوالے سے تقیہ(یعنی اپنے اصل عقائد چھپاکر اہل سنت والجماعت کے ساتھ موافقت کے اظہار)سے کام لیتے ہیں جو ان کے مذہب کا اس قدر اہم اور مؤکد جزء ہے کہ جو تقیہ نہیں کرتا ان کے ہاں وہ بے ایمان ہے،چنانچہ ان کے مذہب ہی کی ایک اہم کتاب "اصول کافی"  کی روایت میں اس کی تصریح موجود ہے کہ "لا ایمان لمن لا تقیة لہ"،جبکہ دوسری روایت کے الفاظ  یوں ہے"لادین  لمن لا تقیة لہ". یعنی جو شخص تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین اور بے ایمان ہے۔("اصول كافي":482،484)

نیز نکاح کوئی وقتی اور عارضی چیز نہیں،بلکہ زندگی بھر کے لئے جیون ساتھی کے انتخاب کا مرحلہ ہے،اس لئے محبت کے جذبات سے مغلوب ہوکر ایسا کوئی فیصلہ نہ کریں جو بعد میں پچھتاوے کا سبب بنے،خاص کر ایسے شخص سے نکاح کا فیصلہ جس کا ایمان ہی مشکوک ہو،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتہ طے کرتے وقت سب سے زیادہ دینداری کا لحاظ اور خیال رکھنے کی تاکید فرمائی ہے۔

حوالہ جات

"رد المحتار" (3/ 46):

"وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي، أو أن جبريل غلط في الوحي، أو كان ينكر صحبة الصديق، أو يقذف السيدة الصديقة فهو كافر لمخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة".

"رد المحتار" (4/ 237):

" لا شك في تكفير من قذف السيدة عائشة - رضي الله تعالى عنها - أو أنكر صحبة الصديق، أو اعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي، أو نحو ذلك من الكفر الصريح المخالف للقرآن".

"بدائع الصنائع" (5/ 456):

" ومنها إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمة فلا يجوز إنكاح المؤمنة الكافر ؛ لقوله تعالى: { ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا } ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر ؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه ، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين إليه وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل : { أولئك يدعون إلى النار } لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر ، والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار ؛ لأن الكفر يوجب النار ، فكان نكاح الكافر المسلمة سببا داعيا إلى الحرام فكان حراما ، والنص وإن ورد في المشركين لكن العلة ، وهي الدعاء إلى النار يعم الكفرة  أجمع فيتعمم الحكم بعموم العلة فلا يجوز إنكاح المسلمة الكتابي كما لا يجوز إنكاحها الوثني والمجوسي ؛ لأن الشرع قطع ولاية الكافرين عن المؤمنين بقوله تعالى : { ولن يجعلﷲ للكافرين على المؤمنين سبيلا } فلو جاز إنكاح الكافر المؤمنة لثبت له عليها سبيل ، وهذا لا يجوز".

"صحيح البخاري" (7/ 7):

"عن أبي هريرة رضي ﷲعنه، عن النبي صلى ﷲ عليه وسلم قال: " تنكح المرأة لأربع: لمالها ولحسبها وجمالها ولدينها، فاظفر بذات الدين، تربت يداك ".

قال الملاعلی القاری رحمہ اللہ :" ( «فاظفر بذات الدين» ) أي: فز بنكاحها. قال القاضي - رحمه ﷲ-: " من عادة الناس أن يرغبوا في النساء ويختاروها لإحدى أربع خصال عدها، واللائق بذوي المروءات وأرباب الديانات أن يكون الدين من مطمح نظرهم فيما يأتون ويذرون، لا سيما فيما يدوم أمره ويعظم خطره.

 ( «تربت يداك» ) يقال: ترب الرجل أي: افتقر كأنه قال: تلتصق بالتراب، ولا يراد به هاهنا الدعاء، بل الحث على الجد والتشمير في طلب المأمور به. قيل: معناه صرت محروما من الخير إن لم تفعل ما أمرتك به، وتعديت ذات الدين إلى ذات الجمال وغيرها، وأراد بالدين الإسلام والتقوى، وهذا يدل على مراعاة الكفاءة، وأن الدين أولى ما اعتبر فيها".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

15/محرم الحرام1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب