84343 | طلاق کے احکام | خلع اور اس کے احکام |
سوال
س کی شادی سات سال پہلے ایک آدمی سے ہوئی۔ بقول س کے دونوں میاں بیوی کی آپس میں بن نہیں سکی۔ س نے حلفیہ کہا ہے کہ ہم میاں بیوی نے اِن سات سالوں میں ایک بار بھی اکٹھے کھانا نہیں کھایا۔ خاوند کی طرف سے کوئی خرچہ بھی مقرر نہیں تھا ۔ س کا باپ ہی س کو خرچہ پانی و دوا علاج کے پیسے دیتا تھا ،س کا شوہر بات بات پر س پر تشدد بھی کرتا تھا۔
ایک دن س کا شوہر گھر پر نہیں تھا تو رات کے وقت س کے دیور نے کمرے میں آ کر س کو جگا کر باہر پڑی اپنی چارپائی پر جانے کو کہا مگر س نے دیور کو انکار کر دیا۔ مسلسل انکار کے بعد س کا دیور کلہاڑی اٹھا لایا۔ س کو کلہاڑی دکھا کر کہنے لگا میرے ساتھ چل ورنہ کلہاڑی سے تیری گردن اُڑا دوں گا۔ اور کلہاڑی کا دستہ س کی کلائی پر مارا ،جس سے س چیخ اُٹھی۔ س کے چیخنے سے س کے آس پاس سوئی ہوئی نندیں بھی جاگ گئیں اور اُنہوں نے بلب آن کیا تو اپنے بھائی کو س کے قریب کھڑا ہوا دیکھا۔ بلب آن ہونے اور اس کی بہنوں کے جاگنے کی وجہ سے وہ کمرے سے باہر پڑی اپنی چارپائی پر جا کر لیٹ گیا۔ اور پھر س وغیرہ اپنے کمرے کو اندر سے کُنڈی لگا کر سو گئیں ۔ صبح ہوتے ہی س نے اپنے سسر کو جو کہ س کا ماموں بھی ہے، سارا حال سُنایا تو س کا سسر آگ بگولا ہو گیا اور اُس نے کلہاڑی اُٹھا لی کہ تُو ہمیں آپس میں لڑانا چاہتی ہے، میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ تب س کی ممانی اور نندوں نے س کے سسر کو پکڑ لیا۔ س کا اپنے والدین سے ٹیلیفونک رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا ،یعنی س کے پاس اپنا موبائل تو تھا ہی نہیں ۔ سسرال والوں کا جب دل کرتا تو وہ رابطہ کروا دیتے تھے، چنانچہ اِس واقعہ کی خبر س کے والدین کو نہیں دی گئی۔ پھر جب س کے شوہر کو اِس واقعہ کا علم ہوا تو وہ راولپنڈی سے گھر واپس آ گیا ۔ س نے اپنے شوہر سے کہا کہ مجھے میکے لے چلو۔ س جب میکے پہنچی تو سارا واقعہ اپنے والدین کو سُنایا،جس پر س کے والدین کو بہت صدمہ اور غصہ ہوا۔ اور اُنہوں نے س کی مرضی کے مطابق اُس کے سسرال نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ س اپنے والدین کے گھر رہی، اسی طرح سات آٹھ مہینےگزر گئے۔ اب س نے اُن سے طلاق لینے کا فیصلہ کر لیا کہ میں ایسے گھر میں نہیں رہ سکتی، جہاں نہ خرچہ پانی ملتا ہے،نہ دوا و علاج کیا جاتا ہےاور نہ ہی عزت محفوظ ہےاور تشدد بھی سہنا پڑتا ہے۔
س کے پُرزور مطالبے کے بعد س کا شوہر بھی طلاق دینے پر رضامند ہو گیا۔ چونکہ س کے ایک نابالغ بھائی کا شرعی نکاح س کی نند سے ہوا تھا یعنی وٹہ سٹہ تھا اِس لیے دونوں فریق خلع و طلاق کیلئے ایک دینی مدرسے میں گئے جہاں دو بھائی مفتی تھے۔ مفتی صاحب نے کہا چونکہ س کا بھائی ابھی نابالغ ہے اِس لیے اُسے طلاق کا اختیار حاصل نہیں ہے، البتہ یکطرفہ طلاق ہو سکتی ہے، جس پر س کے شوہر و سسر نے کہا پھر ہم بھی س کو طلاق نہیں دیں گے۔ ہم بھی سات سال کے بعد طلاق دیں گے جب ہماری والی کو طلاق ملے گی۔ پھر س نے مجبوراً عدالت کا رخ کیا۔ چند ماہ میں عدالت نے س کو خلع کی ڈگری جاری کر دی۔ اور فیصلے کے ورقے پر دونوں میاں بیوی کے انگوٹھے بھی لگوائے۔ انگوٹھے لگوانے کا مطلب ہے کہ دونوں میاں بیوی نے عدالتی خلع کو تسلیم کیا۔
اب پُوچھنا یہ ہے کہ آیا عدالت کی طرف سے س کو جاری کی گئی خلع کی ڈگری شرعی اعتبار سے قابلِ تسلیم ہےیا نہیں ؟س کا دوسری جگہ نکاح صحیح ہو گا یا نہیں ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق عدالت نے خلع سے متعلق جاری ہونے والے فیصلے پر میاں بیوی دونوں سے انگوٹھے لگوائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں میاں بیوی اس خلع کے فیصلے پر راضی ہیں اور خلع زوجین کی رضامندی سے درست ہوتا ہے، اس لیے عدالت سے جاری ہونے والا مذکورہ فیصلہ معتبر اور نافذ ہے، لہذا فریقین کے درمیان نکاح ختم ہو چکا ہے اور فیصلہ جاری ہونے کی تاریخ سے عورت کی عدت شروع ہو چکی ہے، عورت عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔
حوالہ جات
القرآن الکریم[البقرة: 229]:
{فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (229)}
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
16/محرم الحرام 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |