84317 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
ڈرائیور حضرات کی ایک یونین ایمرجنسی میں کام آنے کے لئے ایک چیرٹی فنڈ تشکیل دینا چاہتی ہےجس کے قوانین درج ذیل ہیں:
1- ہر ایڈمن اور گروپ ممبر کام پر نکلنے سے پہلے اپنی لائیو لوکیشن شیئر کرے گا اور کام کا آغاز سفر کی دعا کے ساتھ کرے گا، کسی حادثے کی صورت میں قریبی لوکیشن پر جو بھی ممبر ہوگا وہ جائے حادثہ پر پہنچے گا اور ہر ممکن تعاون کرے گا اگر وہاں پر زیادہ وقت لگتا ہے تو مطالبہ پر اس کو اس وقت کا معاوضہ بھی دیا جائے گا-
2- نامکمل کاغذات رکھنے والے ڈرائیور کو اگر کوئی قانونی مسئلہ پیش آتا ہے تو انتظامیہ اس کا ساتھ دینے کی ذمہ دار نہیں ہوگی-
3- کسی حادثے کی صورت میں اپنی لائیو لوکیشن،کرنٹ لوکیشن وہاں کی تصاویر یا ویڈیو لوکیشن گروپ میں شیئر کرنا لازم ہے اور چیرٹی انتظامیہ کو مطلع کرکے حادثے کی جگہ پر موجود رہنا ہے-
4- گاڑی کے حادثے کی صورت میں سات ہزار روپےسے کم خرچہ ممبر خود کرے گا،رکشہ کے حادثے کی صورت میں دو ہزار سے کم کا خرچہ ممبر خود کرے گا، موٹر سائیکل کے حادثے کی صورت میں ایک ہزار سے کم خرچہ ممبر خود کرے گا-
5- فنڈ ہر ممبر پر ہر ہفتے دینا لازم ہے اورلگاتار دو ہفتے تک فنڈنہ دینے والے ممبر کی رکنیت معطل کی جائے گی۔
6- گاڑی تبدیل کرنے کی صورت میں انتظامیہ کو اطلاع دینا لازم ہے۔
7- اگر ایک گاڑی کو دو کیپٹن چلا رہے ہیں تو ہر کیپٹن اپنا فنڈ دینے کا پابند ہوگا۔
8- اگر حادثے کی صورت میں ڈرائیور زخمی ہوتا ہے تو انتظامیہ کے مشورے سے مناسب فنڈ دیا جائے گا-
9- اگر مستقل ممبر کا حادثے کی صورت میں انتقال ہو جاتا ہے تو یونین کی مشاورت سے اس کے اہل خانہ کے ساتھ مالی تعاون کیا جائے گا۔
نوٹ:
انتظامیہ کا فیصلہ حتمی فیصلہ ہوگا انتظامیہ وقت کے ساتھ اپنی پالیسی تبدیل بھی کر سکتی ہے اور
انتظامیہ کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا،ایڈ مین ہو یا ممبر، نشے کی صورت میں ڈرائیونگ یا غیر قانونی کام میں ملوث پایا گیا تو انتظامیہ اس کی ذمہ دار نہیں ہوگی۔
ہفتہ وار فنڈ دینے کی تفصیل درج ذیل ہے:
کار کیپٹن: 150روپے،رکشہ کیپٹن: 100روپے اور موٹر سائیکل کیپٹن: 50 روپے۔
آپ سے راہنمائی کی درخواست ہے کہ مندرجہ بالا طریقے سے اس فنڈ کے تشکیل دینے میں شرعا کوئی قباحت ہے یا نہیں؟اگر مذکورہ طریقہ ناجائز ہو تو اس کے ممکنہ متبادل طریقے کی طرف بھی ضرور راہنمائی فرمائیں۔شکریہ
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ بالا طریقے کے مطابق چیرٹی فنڈ تشکیل دینا درج ذیل قباحتیں ہیں:
1۔چونکہ اس چیرٹی فنڈ کی انتظامیہ چندہ دینے والوں کی طرف سے ایمرجنسی کے موقع پر رقم خرچ کرنے کی وکیل ہوگی اور وکیل جب تک رقم کو خرچ نہیں کرلیتا وہ چندہ دینے والے کی ملکیت میں رہتی ہے، اس لیے یہ رقم خرچ ہونے سے پہلے شرعاً چندہ دینے والے کی ملکیت ہوتی ہے، لہذاسال گزرنے پر اگر مالک صاحبِ نصاب ہو تو اس کے ذمے اس رقم کی زکاة ادا کرنا لازم ہوگا،اسی طرح اگر اس یونین کا کوئی ممبر اپنی جمع کرائی گئی رقم خرچ ہونے سےپہلے فوت ہو جائے تو اس کے حصہ کی رقم اس کی ملکیت میں ہونے کی وجہ سےاس کے ورثہ کو واپس کرنا ضروری ہوگا،جبکہ عام طور پر اس طرح کی کمیٹیوں میں ان دونوں باتوں کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔
2۔جو افراد اس یونین کو چندہ دیں گے صرف انہیں کے ساتھ تعاون کیا جائے گا،ان کے علاوہ کسی کے ساتھ نہیں،اس شرط کی وجہ سے اس میں جوے کا عنصر آجاتا ہے اس طور پر کہ یونین کی بنیاد باہمی امداد پر نہیں،بلکہ ہر ممبر کو اس کی جمع کردہ رقم کے عوض تعاون فراہم کرنا ہے اور یہ تعاون جمع کردہ رقم سے کم و بیش ہوسکتا ہے۔
3۔ یونین کے ممبران کو چندہ جمع کرانے پر مجبور کرنا،کیونکہ کسی سے اس کا مال دلی رضامندی کے بغیر لینا جائز نہیں۔
اس لیے مذکورہ بالا وجوہ کی بنا ء پر مروّجہ طریقے کے مطابق چیرٹی فنڈ بنانا جائز نہیں،البتہ درج ذیل شرائط کی رعایت کے ساتھ اس کےبنانے کی گنجائش ہے:
- شروع میں چند لوگ مل کر کچھ رقم جمع کرکےاپنی رضامندی سے ایک وقف قائم کریں، جس کی آخری جہت فقراء ومساکین ہوں، یعنی یہ طے کیا جائے کہ اگر کبھی یہ وقف ختم کرنا پڑا تو اس میں موجود رقم فقراء ومساکین پر خرچ کی جائے گی۔ ( يہ یاد رہے کہ جتنی رقم سے شروع میں وقف قائم کیا جائے گا اتنی رقم وقف میں باقی رکھنا ضروری ہو گا، اس کے علاوہ بطورفنڈ دی جانے والی رقم خرچ کی جاسکے گی)
- اس وقف کی شرائط میں یہ بھی لکھا جائے کہ جو شخص اس وقف کو ماہانہ اتنا چندہ دےگا تواس کے ساتھ ایمرجنسی پیش آنے کی صورت یہ وقف ترجیحی بنیادوں پر اس کے ساتھ حسبِ استطاعت تعاون کرے گا اور یہ تعاون چندے کی کمی بیشی کے ساتھ مربوط نہیں ہوگا،بلکہ اس وقف کی انتظامیہ متاثرہ شخص کی مالی حیثیت اور حادثے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا لحاظ رکھ کر تعاون کی مقدار کا فیصلہ کرے گی۔
- چندہ دہندگان کو قانونی طور پر اور نقدی کی صورت میں اس تعاون کے مطالبے کا حق حاصل نہیں ہو گا۔
- ایک اہم شرط یہ بھی ملحوظ رہے کہ وقتاً فوقتاً یہ وقف دیگر ایسے غریب اور نادار افراد(جو اس وقف کو چندہ نہیں دیتے) کے ساتھ کسی ناگہانی حادثے کے موقع پر بھی حسبِ استطاعت ایک معتد بہ اور خاطرخواہ مقدار میں رقم خرچ کرکے تعاون کرے گا۔
- چندہ دینے پر کسی شخص کو مجبور نہیں کیا جائے گااور نہ ان لوگوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے گا جو اس وقف کو چندہ نہ دینا چاہتے ہوں، بلکہ حسبِ صوابديد اپنی خوشی سے جو شخص چاہے اس وقف کو چندہ دینے والوں میں شامل ہوسکے گا،البتہ وقف کی مصلحت کے لیے چندے کی کم از کم حد مقرر کرکے صاحبِ استطاعت لوگوں کو اتنا چندہ دینے کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔
- وقف كا ممبر بننے كے ليے حقيقی اخراجات کے علاوہ کسی قسم کی کوئی رقم وصول نہ کی جائے، نیز اگر کوئی ممبر غریب اور وہ وسعت نہ ہونے کی وجہ سے کبھی طے شدہ رقم سے کم دے تو اس کی بھی گنجائش رکھی جائے۔
مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ وقف قائم ہونے کے بعد چندہ دینے والے افرادکے ساتھ کوئی حادثہ پیش آنے کی صورت میں اس وقف کی انتظامیہ کو وقف کے طے شدہ اصول وضوابط کے مطابق متعلقہ شخص کے ساتھ تعاون کرنے کی اجازت ہو گی،نیز ایسی صورت میں اس وقف میں جمع شدہ رقم پر زکوۃ بھی لازم نہیں ہوگی اور ممبر شپ ختم کرنے والے یا فوت ہونے والےشخص کی جمع کی گئی رقم واپس کرنا بھی ضروری نہ ہو گا،کیونکہ ان کی دی گئی رقم ان کی ملکیت سے نکل کر وقف فنڈ کی ملکیت بن جائے گی۔
حوالہ جات
"السنن الكبرى للبيهقي "(6/ 166):
عن علي بن زيد، عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسولﷲ صلىﷲ عليه وسلم قال: " لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه ".
"تبيين الحقائق " (6/ 227)
قال رحمهﷲ :" (وحرم شرط الجعل من الجانبين لا من أحد الجانبين) لما روى ابن عمر - رضي الله عنهما - «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - سبق بالخيل وراهن»، ومعنى شرط الجعل من الجانبين أن يقول إن سبق فرسك فلك علي كذا، وإن سبق فرسي، فلي عليك كذا وهو قمار فلا يجوز؛ لأن القمار من القمر الذي يزاد تارة، وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا ؛لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه فيجوز الازدياد والانتقاص في كل واحد منهما فصار قمارا وهو حرام بالنص".
"رد المحتار" (4/ 363):
"وقال المصنف في المنح: ولما جرى التعامل في زماننا في البلاد الرومية وغيرها في وقف الدراهم والدنانير دخلت تحت قول محمد المفتى به في وقف كل منقول فيه تعامل كما لا يخفى؛ فلا يحتاج على هذا إلى تخصيص القول بجواز وقفها بمذهب الإمام زفر من رواية الأنصاري وﷲتعالى أعلم، وقد أفتى مولانا صاحب البحر بجواز وقفها ولم يحك خلافا. اهـ".
"بدائع الصنائع " (2/ 9):
"وأما الشرائط التي ترجع إلى المال فمنها: الملك فلا تجب الزكاة في سوائم الوقف والخيل المسبلة لعدم الملك وهذا؛ لأن في الزكاة تمليكا والتمليك في غير الملك لا يتصور. ولا تجب الزكاة في المال الذي استولى عليه العدو وأحرزوه بدراهم عندنا؛ لأنهم ملكوها بالإحراز عندنا فزال ملك المسلم عنها".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
16/محرم الحرام1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |