84325 | نکاح کا بیان | حرمت مصاہرت کے احکام |
سوال
میرے چار بچے ہیں ، جن میں سے دو جوان بچیاں ہیں، ان کے والد نے ان کے ساتھ غلط حرکتیں کی ہیں اور ان کے جسم کے مخصوص حصوں پر ہاتھ لگایا ہے۔ دو دن پہلے میر ی ایک بچی سورہی تھی ، تو اس کے والد نے آکر کان میں کہا کہ دودھ پلادے، بچی کی آنکھ کھلی ، تو اس کی قمیض اوپر کی طرف ہٹی ہوئی تھی، فورا والد کو دھکا دے دیا۔ اسی طرح ایک دفعہ دوسری والی بچی نے بتایا کہ ایک مرتبہ میری آنکھ کھلی تھی ، تو والد کا منہ میرے سینے کے پاس تھا ۔
بچیوں کے والد ایک عرصہ سے ایسی نا مناسب حرکتیں کررہے ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ مجھ پر شیطان کا غلبہ ہوا تھا، مجھے معاف کردیں۔
برائے کرم اس مسئلہ کا کوئی حل بتائیں ۔ ایسی صورت حال میں بیوی کا شوہر کے ساتھ رہنا کیسا ہے؟میں چار بچے لے کر کہاں جاؤں؟ معاشرے میں میری بدنامی الگ ہے اور میرے والدین انتہائی ضعیف ہیں، والدہ ہسپتال میں داخل بھی ہے۔
تنقیح: سائلہ اور ان کے شوہر سے فون پر بات ہوئی ہے، شوہر کے مطابق انہوں نے دو مرتبہ دونوں بچیوں کی قمیض اوپر کی تھی، اس دوران اس کا ہاتھ ہلکا سا ان کے جسم پر لگا ہوا تھا، مزید کوئی حرکت نہیں کی تھی اور حلفا یہ اقرار کرتا ہے کہ ان میں نہ شہوت طاری تھی، نہ آلہ تناسل میں انتشار تھا، بلکہ انہیں الٹا شدید گھبرا ہٹ ہورہی تھی اور اس گھبراہٹ کے باعث کوئی کام کیے بغیر واپس ہوا ہے۔مزید یہ کہ وہ ایک ذہنی مرض میں مبتلا ہے، طبیعت میں چڑچڑاپن بہت زیادہ ہے،عرصہ پہلے ڈاکٹر سے تھوڑا بہت علاج کرایا تھا، لیکن کوئی خاص فرق نہیں آیا ہے اور وہ اپنے اس عمل پر اللہ سے معافی مانگتا اور سچی توبہ بھی کرتا ہے۔
جبکہ اس کے برعکس سائلہ (بچیوں کی ماں ) کا کہنا ہے کہ کچھ دن پہلے ان کے شوہر ایک بچی کے پاس آئے تھے اور وہ سورہی تھی، تو اس کی قمیض اوپر کرکے سینہ بند ہٹادیا تھا اور بچی کے کان میں کہا کہ دودھ پلادے، پھر جیسے ہی اس کی آنکھ کھلی ،تودیکھا یہ اپنے والد ہی ہیں ، فورا نہیں پیچھے کی طرف دھکا دے دیا اور دوسری بچی نے سائلہ سے اپنا واقعہ بیان کیا ہےکہ ایک دفعہ والد میرے پاس آئے تھے اور میں سورہی تھی ، میری آنکھ کھلتے ہی دیکھا کہ والد کا منہ میرے سینے کے قریب تھا اور میری قمیض کا سامنے والا حصہ جسم سے اوپر ہٹا ہوا تھا، لیکن میں نے اپنے سینے پر کوئی تری وغیرہ محسوس نہیں کی تھی۔
ضروری وضاحت: شوہر کا دعوی ہے کہ میں نے اگرچہ بچیوں کا جسم اندھیرے میں دیکھا ہے، لیکن میں قرآن پہ ہاتھ رکھ کر حلفا کہتا ہوں کہ مجھ میں کوئی شہوت نہیں تھی، نہ انتشارِ آلہ تھا، بلکہ الٹا گھبراہٹ ہورہی تھی ، اگر مجھے دارلافتاء میں بھی بلاکر مجھ سے حلف لیا جائے ، تو میں حاضر ہوجاتا ہوں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اس بارے میں شرعی اصول یہ ہے اگر باپ اپنی بالغ بچی کواس طرح چھوئے کہ اس کے اور بچی کے جسم کےدرمیان کوئی کپڑا حائل نہ ہو یا کپڑا تو ہو، لیکن وہ اس قدر باریک ہو کہ جس سے بدن کی حرارت باپ کو محسوس ہو اور باپ اور بچی دونوں یا کسی ایک میں یقینی طور پرشہوت ہو،(باپ میں شہوت اس طور پر ہو کہ اس کے آلہ تناسل میں انتشار ہو اور بچی میں شہوت اس طور پر ہو کہ اس کے دل میں ہیجان کی کیفیت پیدا ہورہی ہو)، یا باپ بچی کے جسم کے ایسے حصے کو بلاحائل چھوئے یا بوسہ دے، جہاں چھونے میں شہوت غالب ہو، توا یسی صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، اور اس کی وجہ سے باپ پر بچی کی ماں حرام ہوجا تی ہے۔
لیکن اگر صورت حال اس کے برعکس ہو، مثلا باپ اپنی بالغ بچی کو اس طرح چھوئے کہ اس میں شہوت نہ ہو اور اس کے آلہ تناسل انتشار بھی نہ ہو ، یا خود بچی کے اندر ہیجان کی کیفیت پیدا نہ ہوئی ہو، تو ایسی صورت میں حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی اور بیوی شوہر کے لیے حلال رہتی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں بچی کے باپ نے حلفیہ کہا ہے کہ اگرچہ بچیوں کے قمیض ہٹاتے وقت اس کاہاتھ ان کے جسم پر ہلکا سا لگا تھا، لیکن اس دوران اس میں شہوت بالکل بھی نہیں تھی، بلکہ شدید قسم کی گھبراہٹ ہورہی تھی، نیز اس کے آلہ تناسل میں معمولی سا انتشار بھی پیدا نہیں ہوا تھا، بلکہ ایک عرصہ سے زیادہ دوائیاں کھانے کی وجہ سے آلہ تناسل میں نہایت کمزوری آئی ہوئی ہے، لہذا اگر واقعتا ایسی ہی صورتحال پیش آئی تھی اور شہوت کے ساتھ چھونا یقینی نہیں تھا، جبکہ ہاتھ سے چھونے سے حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لیے شہوت کا یقین ہونا شرط اور لازم ہے اور یہاں شوہر کے اقرار کے مطابق شہوت کایقین سے ہوناثابت نہیں ہے، تو ایسی صورت میں حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ بیوی شوہر کے لیے بدستور حلال رہے گی اور دونوں کے درمیان زوجیت کا رشتہ حسب سابق قائم رہے گا۔
البتہ شوہر کے والد اور خاندان کے بااثرو بزرگ افراد پر لازم ہے کہ اس بے غیرتی اور رشتوں کے تقدس کی پامالی اور کبیرہ گناہ کے ارتکاب پر اس کی مضبوط تنبیہ کریں اور اس مسئلے کی نزاکت و حساسیت اسے اچھی طرح سمجھائیں اور آئندہ کے لیے ایسے قبیح اور ناجائز حرکات سے روکنے کی بھرپور کوشش کریں۔
حوالہ جات
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (3/ 66):
في «واقعات الناطفي» : إذا قصد أن يقيم امرأته إلى فراشه أو يجامعها وهي نائمة ومعها ابنتها المشتهاة، فوصلت يده إلى الابنة فقرصها بإصبعه وظنّ أنها امرأته؛ إن كانت يده إلى الابنة وهو تشتهي لها، حرمت عليه امرأته وإن كان يحسبها امرأته؛ لأنه مسها بشهوة، وإن كان لا شهوة له في وقت ملامستها لا تحرم؛ لأنه لم يوجد مسها بشهوة۔
الفتاوى الهندية (1/ 275):
ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك وإن كان رقيقا بحيث تصل حرارة الممسوس إلى يده تثبت، كذا في الذخيرة.
الفتاوى الهندية (1/ 275)
وحد الشهوة في الرجل أن تنتشر آلته أو تزداد انتشارا إن كانت منتشرة، كذا في التبيين، وهو الصحيح......وحد الشهوة في النساء والمجبوب هو الاشتهاء بالقلب والتلذذ به إن لم يكن وإن كان فازدياده، كذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم. ووجود الشهوة من أحدهما يكفي وشرطه أن لا ينزل حتى لو أنزل عند المس أو النظر لم تثبت به حرمة المصاهرة، كذا في التبيين.
صفی اللہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
18/محرم ا لحرام/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | صفی اللہ بن رحمت اللہ | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |