84326 | طلاق کے احکام | خلع اور اس کے احکام |
سوال
میر ی اہلیہ نے کچھ گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے کورٹ میں خلع کا کیس دائر کر وایا، خلع کے اس فیصلہ میں میری رضامندی نہیں تھی،اسی وجہ سے مہر کی واپسی کی بات ہوئی، تو میں نے اسے بھی قبول نہیں کیا ، اب میں دوبارہ اپنی اہلیہ کو ساتھ زندگی بسر کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، کیا کورٹ کا میری مرضی کے خلاف فیصلہ کرنے سے خلع نافذ ہو گئی یا نہیں ؟
تنقیح : سائل کی زبانی وضاحت کے مطابق انہوں نے تحریری یا زبانی کسی بھی طور پر عدالتی خلع کو قبول نہیں کیا تھا، صرف ایک سادہ کاغذ پر مہر نہ لینے پر دستخط کیے تھے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
خلع میں زوجین (شوہر اور بیوی دونوں) کی رضامندی ضروری ہے ،اگر زوجین میں سے کوئی ایک خلع پر راضی ہو اور دوسرا راضی نہ ہو، تو محض یک طرفہ خلع کا عدالتی فیصلہ شرعامعتبرنہیں ہوگا ،لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ عدالتی فیصلہ صرف بیوی کے بیان کی بنیاد پرمبنی ہے اوراس میں شوہر کی صراحۃ یا دلالۃ رضامندی شامل بھی نہیں تھی ، مزید یہ کہ شوہر نے تحریری یا زبانی کسی بھی طور پر خلع قبول کرنے سے انکار کیا ہے،ا س لیےیہ خلع شرعا واقع نہیں ہوئی اور میاں بیوی کا نکاح بدستور قائم ہے اور خلع کی ایسی عدالتی ڈگری حاصل کرنےکی وجہ سے عورت کو کسی دوسری جگہ نکاح کرنا قطعا جائز نہیں،بلکہ وہ بدستور اپنے شوہر کے نکاح میں ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 440):
فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية لا يتم الخلع ما لم يقبل بعده.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 145)
وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.
المبسوط للسرخسي (6/ 173):
(قال) : والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق ولها ولاية التزام العوض.
صفی اللہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
18/محرم ا لحرام/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | صفی اللہ بن رحمت اللہ | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |