03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی اور اس کے قرض کا شرعی حکم
83044شرکت کے مسائلمعاصر کمپنیوں کے مسائل

سوال

زید ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کا شریک بانی، تقریبا دوفیصد کا شیئر ہولڈر  ہے۔کمپنی کی  سافٹ ویئر  انجینیر ٹیم کا ڈائریکٹر ہے لیکن کمپنی کے مالی لین دین  اور اس سے متعلقہ فیصلوں میں شامل نہیں ۔ مروجہ ملکی قوانین کے تحت چونکہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ایک جداگانہ قانونی فرد کی حیثیت رکھتی ہے، اپنی ملکیت رکھ سکتی ہے لہذا تمام لائیبیلیٹی یا قرض وغیرہ بھی کمپنی کا ہوتا ہے۔ اس صورت کو سامنے رکھتے ہوئے اگر کمپنی مستقبل میں دیوالیہ ہوتی ہے تو کمپنی کی ملکیت کے اثاثے تو قرض کی ادائیگی کے لیے قرق کیے جاسکتے ہیں،لیکن قانونی طور پر شیئر ہولڈرز کی انفرادی ملکیت سے قرض کی ادائیگی نہیں کی جاسکتی۔

         سوالات :

1.  کیا کمپنی کی مذکورہ قانونی ملکیت کو شریعت میں تسلیم کیا گیا ہے؟ یا قرض کی ادائیگی اس کے شیئر ہولڈرز کی نجی ملکیت (جو کہ کمپنی کے  شیئرز کے علاوہ ہے) سے بھی کرنا ضروری ہوگی؟

2.  اور کمپنی کے  قرض ادا نہ ہونے کی صورت میں آخرت میں شیئر ہولڈرز کا بھی مواخذہ ہوگا؟

3.  کمپنی نے زید سے بھی کچھ قرض لے رکھا ہے جسے کمپنی نے اپنے کھاتوں میں بطور قر ض لکھ رکھا ہے، جبکہ زید کا بطور شیئر ہولڈر کمپنی کے قرض میں تقریبا دو فیصد حصہ (یعنی زید کا کمپنی میں شیئر) ہے۔کیا اس صورت(یعنی اگر شرعی حکم یہ ہو کہ کمپنی کے  دیوالیہ ہونے کی صورت میں زید کی انفرادی ملکیت کو بھی قرض کی ادائیگی کے لیے قرق کیا جائے گا ) میں زید سے لیا گیا قرض پہلے منہاکیا جائے گا اور بقیہ رقم زید کے ذمہ واجب الاداء قرض سمجھی جائے گی؟

4.  کمپنی سے متعلق دونوں احتمالات موجود ہیں کہ شاید مستقبل میں دیوالیہ ہوجائے اور شاید نہ بھی ہو،اس صورتحال میں اگرآج زید کمپنی سے استعفی دیتا ہے اور تمام شیئرز غیر مشروط طور پر واپس کرتا ہے،مستقبل کے نفع نقصان سے اپنے آپ کو الگ کرتا ہے، کیا اس صورت میں وہ قرض سے بری الذمہ سمجھا جائے گا؟ یا اس کیلئے بہتر ہے کہ آخری وقت تک کمپنی میں موجود رہے؟ یاد رہے کہ کمپنی کے قوانین کے مطابق وہ ابھی تو مستعفی ہوسکتا ہے ،لیکن دیوالیہ ہونے کے بعد یہ امکان نہ ہوگا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

SECP  کے قواعد کے مطابق اگر  پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی دیوالیہ ہوجائے تو کمپنی کے اثاثے قرق کرکے  دیون کی ادائیگی کی جاتی ہے ۔شئیرز ہولڈرز کمپنی میں موجود شیئرز کے تناسب سے اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔  محدود ذمہ داری کا تصور اپنے عمومی معنیٰ میں تو خلاف شرع ہے، کیونکہ شریعت میں واجب الذمہ حقوق سے بری ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں :ادائیگی یا پھر صاحب حق کا معاف کردینا ۔

لیکن کمپنی   کے ’’لمیٹڈ ‘‘  ہونے کی  وضاحت ہوتے ہوئے  اور کمپنی کے میمورنڈم ، آرٹیکل آف ایسوسیئیشن       پڑھنے کے بعد(جس میں اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ کمپنی ممبرز کی ذمہ داری محدود ہے)   کمپنی سے جو لوگ معاملات کرتے ہیں تو ان کی طرف سے گویا  غیر معمولی حالات پیش آنے کی وجہ سے کمپنی کے دیوالیہ ہوجانے کی  صورت میں  اپنے حقوق سے   ’’ابراء مقدم‘‘ پایا جاتا ہے۔ابراء مقدم کا معنیٰ یہ ہے کہ کسی  کا شروع ہی سے دوسرے بندے کو کسی ذمہ داری سے بری کردینا ۔فقہاء احناف کے ہاں  اگر یہ شروع سے بری کرنا کسی شرط ملائم  و متعارف کے ساتھ ہو  ،جیسے دیوالیہ ہونے کی شرط : تو یہ براءت  درست ہے۔یعنی ان کی طرف سےاپنے حقوق سے  ذمہ داری سے مشروط براءت  ہوتی ہے،گویا صاحب     حق اپنی مکمل مرضی سے  کمپنی کے ممبران  کو اس طور پر بری الذمہ قرار دیتا ہے کہ غیر معمولی حالات   پیش آنے کی وجہ سے   کمپنی کے دیوالیہ ہوجانے اور نقصان ہونے کی صورت میں  ممبران صرف کمپنی میں موجود اپنی ملکیت کی  حد تک ذمہ دار ہوں گے،   کمپنی کے اثاثے قرق کرکے  دیون کی ادائیگی کی جائے   گی ،ممبران  اپنی ذاتی ملکیت سے ادائیگی کے ذمہ دار نہیں ہوں گے ۔محدود ذمہ داری  کو اس معنیٰ میں   لیا جائے تو یہ شریعت میں مسلم ہے۔  

مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں  سوالات کے جوابات یہ ہیں :

  1. ’’ابراء مقدم بشرط متعارف ‘‘ کے فقہی قاعدے کی روشنی میں محدود ذمہ داری  کا تصور مسلم ہے۔عام شیئر ہولڈر کی ذمہ دار ی کمپنی میں موجود اپنے اثاثوں کی حد تک ہے۔لہٰذا کمپنی کے دیون کی ادائیگی زید کی  نجی ملکیت سے نہیں کی جائے گی۔   
  2. کمپنی میں موجود اثاثوں  سے زیادہ دیون کی ادائیگی سے زید قانوناً  اور دیانۃً بری ہے ،لہٰذا لوگوں کے دیون مکمل ادا نہ ہونے کی صورت میں  آخرت میں اس کا مواخذہ نہیں ہوگا۔
  3. چونکہ اوپر یہ بات واضح ہوگئی کہ قرض کی ادائیگی زید کی ملکیت سے نہیں کی جائے گی ،لہٰذا زید  کا  کمپنی کے  ذمے جو قرض ہے، اسے قرض کی ادائیگی کے لیے منہا نہیں کیا جائے گا،بلکہ وہ کمپنی کے  اثاثوں   سے واجب الاداء  رہے گا  اور  زید بقیہ  قرض خواہوں کے ساتھ مل کر  اپنے متناسب حصہ کا حقدار ہوگا۔
  4. مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں زید جب کمپنی کے قرض کا ذمہ دار ہی نہیں تو اس کے لیے شیئرز واپس کرکے بری الذمہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔

یہ تفصیل اس صورت میں ہے جبکہ زید کا کمپنی قائم کرتے ہوئے کوئی منفی مقصد نہ ہو۔اگر زیدکو  کمپنی قائم  کرتے ہوئے یہ معلوم تھا کہ یہ ڈوب جائے گی اور صرف ذمہ داری سے بچنے کے لیے اس نے محدود ذمہ داری کے قانون سے فائدہ اٹھایا تو یہ آخرت میں قابل مؤاخذہ گناہ ہوگا۔

حوالہ جات

روی الإمام أبو داؤ د رحمہ اللہ فی سننہ: عن أبي سعيد الخدري، أنه قال: أصيب رجل في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثمار ابتاعها فكثر دينه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  تصدقوا عليه ، فتصدق الناس عليه، فلم يبلغ ذلك وفاء دينه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  خذوا ما وجدتم وليس لكم إلا ذلك.(  سنن  أبی داؤ د: 3469)  

قال العلامۃ المرغینانی رحمہ اللہ: وأما شركة العنان فتنعقد على الوكالة دون الكفالة، وهي أن يشترك اثنان في نوع بر أو طعام، أو يشتركان في عموم التجارات. (  الهداية في شرح بداية المبتدي : 3/ 9)

قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:و الدين الصحيح  هو ما لا يسقط إلا بالأداء أو الإبراء.

(الدر المختار  : 454 )

 قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: والإبراء ‌عن ‌الدين(أی لا یصح تعلیقہ بالشرط)  لانه تمليك من وجه إلا كان الشرط متعارفا . (الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار:ص445)

 وعلق علیہ العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ بقولہ:  وذكر في البحر صحة الإبراء عن الكفالة إذا علقه بشرط ملائم ... قوله :إلا إذا كان الشرط متعارفا،كما لو أبرأته مطلقته بشرط الإمهار فيصح لأنه شرط متعارف، وتعليق الإبراء بشرط متعارف جائز... ومنه يعلم أن التعليق يكون بالدلالة، ويتفرع على ذلك مسائل كثيرة فليحفظ ذلك، رملي... قوله:أو علقه بأمر كائن إلخ ،منه ما في جامع الفصولين :لو قال لغريمه: إن كان لي عليك دين فقد أبرأتك وله عليه دين برئ ؛لأنه علقه بشرط كائن فتنجز. ( رد المحتار  :5/ 244)

قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ: ولو قبض المشتري المبيع بإذن البائع ثم أفلس أو مات قبل نقد الثمن أو بعد ما نقد منه شيئا، وعليه ديون لأناس شتى هل يكون البائع أحق به من سائر الغرماء؟ اختلف فيه ، قال أصحابنا: لا يكون له ،بل الغرماء كلهم أسوة فيه فيباع، ويقسم ثمنه بينهم بالحصص.

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:5/ 252 )

ذبیح اللہ لغاری

دارالافتاء ،جامعۃالرشید،کراچی

18/رجب المرجب 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ذبیح اللہ بن عبد اللہ

مفتیان

فیصل احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب / شہبازعلی صاحب