84359 | معاشرت کے آداب و حقوق کا بیان | متفرّق مسائل |
سوال
بیوی اگر اپنے ماں باپ کے گھر ہو اور اس کا شوہر بھی وہاں آجائے اور وہ اسے مجبور کرے اس کو کہ تم میرے ساتھ کمرے میں آؤ ، دروازہ بند کرکے میرے حقوق ادا کرو۔ اس حوالے سے بیوی اگر اسے منع کرتی ہے کہ مجھے اپنے ماں باپ کے گھریہ اچھا نہیں لگتا، بھلےالگ کمرے میں سوئیں کیونکہ ایک تو بچے بھی ہیں کمرے میں اوپر سے ماں باپ کا گھر ہے ۔ میرے شوہر ان باتوں پے ناراض ہوجاتے ہیں اور اس بات پر ہمارا جھگڑا بھی ہوجاتا ہے ۔دوسرا سوال یہ ہے کہ ان کے گھر میں جگہ نہیں ہے ، ایک ہی کمرے میں گزر بسر ہے ،دو بچے بھی ہیں ۔ یہ مسئلہ ہے کہ جب رات کو سونے کے لیے لیٹو تو شوہر تب بھی ناراض ہوتا ہے کہ تم میرے پاس نہیں آتی۔ میری ایک بچی ارٹیزم (دماغ سے متعلق ایک بیماری ہے جس میں بچے کو بولنے میں اورلوگوں سے میل جول میں ،مسائل ہوتے ہیں اور اس کی حساسیت بڑھ جاتی ہے) ہے ، تو وہ بچی اکثر ماں کو نہیں چھوڑتی، وہ جاگ جاتی ہے ۔ ایک بیٹا ہے، وہ بھی بیچ رات میں اکثر جاگ جاتا ہے ۔ بچے بڑے ہو رہے ہیں ۔ اس حوالے سے رہنمائی فرما دیں، کیونکہ شوہر بیوی کو ہی طعنے اور طنز مارتا ہے کہ تم حقوق پورے نہیں کرتی ۔ بیوی کی صرف یہ ڈیمانڈ ہے کہ اب بچے بڑےہو رہے ہیں، بھلے نو سال ایک کمرے میں گزار دیے ،اب یا تو انتظام کرو گھرکا یا پھر یہ سب چیزیں کرنا چھوڑ دو۔ کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ بچے ہمیں کبھی نازیبا حالت میں دیکھیں ، کہ اس کا عذاب ماں باپ پر آئے گا۔ ان کو اس چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،وہ بیوی کو میسجز بھیجتے ہیں ،جس میں احادیث ہیں اور یہ سب لکھا ہے کہ بیوی کو ہر حالت میں شوہر کے حقوق پورے کرنے ہیں ۔ شوہر یہ بھی عذر کرتے ہیں کہ میں افورڈ نہیں کر سکتا دوسرا گھر یا ایک اور کمرہ تو میں اپنی چیزیں کہاں سے پوری کروں برائے مہربانی میری رہنمائی فرما دیں ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جب شوہر اپنی بیوی کو حقوق کی ادائیگی کے لیے بلائے اور کوئی عذر شرعی نہ ہو تو شوہر کے حقوق پورے کرنا اس پر واجب ہے۔بیوی کا انکار ،ٹال مٹول کرنا گناہ کبیرہ ہے ۔ ماں باپ کے گھر میں ہونے کا شرعی عذر ہونا علاقے اور خاندان کے عرف پر مبنی ہے، اگر خاندان کے عرف میں یہ عمل بہت معیوب سمجھا جاتا ہے تو پھر شوہر کو چاہیے کہ حالات کی رعایت رکھ کر اپنی خواہش پر قابو رکھے۔اگر اس کومعیوب نہیں سمجھا جاتا تو پھر بیوی کو انکار نہیں کرنا چاہیے۔
اگر اپنے گھر میں ایک ہی کمرہ ہے۔ اولا تو میاں کو چاہیے کہ وہ کوئی ایسا انتظام کرے کہ بچے الگ کمرے میں ہوں اور آپ دوسرے کمرے میں ،لیکن اگر حالات اور تنگدستی کی وجہ سے فی الحال گنجائش نہیں اور وہ مجبور ہے تو آپ کو چاہیے کہ کوئی ایسے صورت اختیار کریں کہ بچوں کے سامنے بھی نہ ہوں اوردونوں کی حقوق کی ادائیگی بھی ہوجائے۔ ایسے حالات دوسرے گھروں میں بھی پیش آتے ہیں تو لوگ اپنے حساب سے مینج کر لیتے ہیں تو آپ بھی کرسکتی ہیں ۔
میاں بیوی کے تعلقات میں نشیب و فراز آتے ہیں، بات بات پر جھگڑے اور شکایات سے گھر نہیں چلتے۔ دونوں باہمی مشاورت سے معاملات کو حل کریں ، اگر ایسے حالات میاں کی سستی کی وجہ سے ہیں تو انہیں کام کرنے اور ملازمت کے لئے اچھے انداز میں ترغیب دیں ،اور اپنے میاں کی اچھی ملازمت اور تنخواہ کے لیے اللہ کے حضور دعاؤں کا التزا م کریں ۔
حوالہ جات
صحيح البخاري (4/ 116):
حدثنا مسدد حدثنا أبو عوانة، عن الأعمش، عن أبي حازم، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان عليها لعنتها الملائكة حتى تصبح» تابعه أبو حمزة وابن داود وأبو معاوية عن الأعمش.
صحيح مسلم (2/ 1060 ت عبد الباقي):
«(1436) حدثنا ابن أبي عمر. حدثنا مروان عن يزيد (يعني ابن كيسان)، عن أبي حازم، عن أبي هريرة. قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"والذي نفسي بيده! ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشها، فتأبى عليه، إلا كان الذي في السماء ساخطا عليها، حتى يرضى عنها۔
الموسوعة الفقهية الكويتية (44/ 19):
«موانع الوطء المشروع تسعة، اتفق الفقهاء على ستة منها: وهي الحيض والنفاس والاعتكاف والصوم والإحرام والظهار قبل التكفير، واختلفوا في ثلاثة منها: وهي الاستحاضة، وعدم الاغتسال بعد الطهر من الحيض، والإقامة في دار الحرب۔
محمد سعد ذاكر
دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی
20/محرم الحرام /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |