84358 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ کےمتفرق مسائل |
سوال
ہمارے علاقے میں ایک ویلفیئر کمیٹی ہے۔ وہ ویلفیئر کمیٹی کبھی کسی خاص شخص کے لیے چندے کا اعلان کر دیتی ہے تو جو لوگ اس خاص شخص کے لیے چندہ دے دیتے ہیں تو چندے کی وہ رقم اس خاص شخص کو ویلفیئر کمیٹی پہنچا دیتی ہے ۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک بیمار، لاچار یا غریب شخص کو وہ اپنے فنڈ سے امداد دے دیتے ہیں ( وہ فنڈ بھی لوگوں کا دیا ہوا چندہ جو عمومی ویلفیئر کاموں کے لیے دیتے ہیں)اور پھر ویلفیئر کمیٹی اس غریب شخص کے لیے چند ے کا اعلان کر دیتی ہیں تو جو چندہ اس غریب شخص کے امداد کے نام پہ جمع ہو جاتا ہے، ویلفیئر کمیٹی اس چندے کو اپنے فنڈ میں جمع کر دیتی ہے جس سے اس نے اس غریب شخص کی امداد کی تھی۔تو اس قسم کی چندے کی رقم، اور اسکے اس طرح کے استعمال کے بارے میں شریعت کیا حکم دیتی ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ویلفیئر کمیٹی لوگوں کی طرف سے بطور وکیل ان کے رقوم مختلف مصارف میں خرچ کرتی ہے ۔ ویلفیئر کے عمومی فنڈ کے مصارف میں سے ایک مصرف علاقے کے غریبوں اور ضرورت مندوں کی مددکرنا بھی ہے۔جب عمومی فنڈ سے کسی غریب کی مدد کی گئی توفنڈ اپنے مصرف میں استعمال ہوا اور اب دوبارہ اس غریب کے نام پر چندہ کرکے فنڈ میں جمع کرنے کی ضرورت نہیں ۔
دوسری بات یہ کہ لوگوں سے کسی غریب یا بیمار کی مدد کے لیے چندہ وصول کر کے اسے عمومی فنڈ میں ڈالنا ٹھیک نہیں ،کیونکہ چندہ دینے والے ویلفیئر کمیٹی کو جس مد میں خرچ کرنے کا وکیل بنا تے ہیں ،کمیٹی اسی مد میں وہ رقم خرچ کر سکتی ہے۔لیکن اگر چندہ دینے والوں کو یہ معلوم ہو کہ غریب کی مدد ہوچکی ہے اور یہ چندہ عمومی فنڈ میں جائے تو اس کی گنجائش ہے۔
بہتر تو یہی ہے کمیٹی ویلفیر ٹرسٹ میں یوں شفافیت پیدا کرے کہ لوگ بغیرمستحق کے نام کے ہی چندہ دیتے ہوں ۔ اس میں ایک مسلمان کی عزت اور وقار کی حفاظت ہے۔لیکن اگرحاجت مندکو عمومی فنڈ سے ادائیگی کے بعد کسی مجبوری کےتحت اس کے نام پے چندہ کرنا ناگزیر ہو ، تو اس کے دو طریقے ہو سکتے ہیں؛ ایک یہ ہے کہ چندہ دیتے وقت اس غریب کو بطور قرض رقم دی جائے ،پھر اس کے نام پر جمع ہونے والے چندے سے اس کا قرض ادا کر دیا جائے ، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جب کمیٹی کسی حاجت مند کو پیسے دے تو وہ شخص کمیٹی کو اپنی طرف سے وصولی اور خرچ کا وکیل بنا دے ،پھر کمیٹی اس کے نام پے چندہ جمع کر کے اس کے وکیل کے طور پر وہ چندہ عمومی فند میں جمع کردے۔
حوالہ جات
حاشية ابن عابدين (2/ 269):
وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل
حاشية ابن عابدين (2/ 269):
«العالم إذا سأل للفقراء شيئا وخلط يضمن.
قلت: ومقتضاه أنه لو وجد العرف فلا ضمان لوجود الإذن حينئذ دلالة. والظاهر أنه لا بد من علم المالك بهذا العرف ليكون إذنا منه دلالة»
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (4/ 254):
(صح التوكيل) لما بينا من الأدلة قال رحمه الله (وهو إقامة الغير مقام نفسه في التصرف) أي التصرف الجائز المعلوم هذا في الشريعة حتى إن التصرف إذا لم يكن معلوما يثبت به أدنى تصرفات الوكيل وهو الحفظ فقط
محمد سعد ذاكر
دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی
20/ محرم الحرام/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |